پلاسٹک سرجري کا تاريخي پس منظر
انسان فطري طور پر چاہتا ہے کہ وہ صحت مند رہے ،اسے کوئي بيماري لاحق نہ ہو، اس کے اعضائے بدن ٹھيک طريقے سے کام کرتے رہيں،ان کے افعال ميں کوئي نقص و خلل واقع نہ ہو،ظاہري طور پر بھي ان ميں کوئي عيب دکھائي نہ دے اوراس کي شخصيت پرکشش اور جاذب نظر معلوم ہو- يہي وجہ ہے کہ اگرکسي سبب سے اس کے کسي عضو ميں بد ہيئتي پيدا ہو جائے تو وہ اس کے ازالے کي کوشش کرتا ہے اور اگر وہ عضو اپنا مفوّضہ کام کرنا بند کر دے يا اس ميں کمي آ جائے تواسے درست کرنے کي تدابير اختيار کرتا ہے-
دنيا کي تمام قوموں ميں علاج معالجہ کي جن اولين تدابيرکاسراغ ملتا ہے ان ميں اس پہلو کے بھي اشارے پائے جاتے ہيں- مورخين کے مطابق ہندوستان ميں دو ہزار سال قبل مسيح اس عمل کا پتا چلتا ہے- مشہور ہندوستاني طبيب سشرت (Sushruta) نے (جس کا زمانہ چھٹي صدي قبل مسيح بتايا جاتا ہے ) پلاسٹک سرجري کے ميدان ميں اہم خدمات انجام دي ہيں- قديم مصري طب ميں بھي چہرے کے عمل جراحي سے متعلق بعض تفصيلات ملتي ہيں- اسي طرح پہلي صدي قبل مسيح ميں رومي طب ميں اس مخصوص عمل جراحي کي سادہ تکنيک کاسراغ ملتا ہے- يہ لوگ زخمي اور کٹے ہوئے کان کي اصلاح اوردرستگي کا کام انجام ديتے تھے- اس طريقۂ علاج ميں ہندوستاني اطباء کي مہارت سے ديگر ممالک ميں بھي فائدہ اٹھايا گيا- سشرت اور چرک (Charaka b.300BC) کي طبّي تصانيف کاعباسي عہد خلافت ميں عربي ميں ترجمہ کيا گيا- ان سے عرب اطباء واقف ہوئے، پھر يہ ترجمے يورپ پہنچے تو ان سے بھر پور استفادہ کيا گيا- بيان کيا جاتا ہے کہ اٹلي ميں Branca Family of Sicily (15th Century) اور Gaspare Taglia Cozzi (Bologna) سشرت کي تکنيک سے بہ خوبي آگاہ تھے- اٹھارہويں صدي کے اواخر ميں کچھ برطانوي طبيبوں نے ہندوستان کا سفر کيا، تا کہ ناک کي پلاسٹک سرجري کا مشاہدہ کريں، جو يہاں مقامي طريقوں سے انجام دي جاتي تھي- اس کي رپورٹيں Gentleman's Magazine ميں شائع ہوئيں- اسي طرح پلاسٹک سرجري کے مقامي طريقوں کا مطالعہ کرنے کے ليے Joseph Constantine Carpue(1764-1846) نے ہندوستان ميں بيس سال گزارے- چوں کہ عمل جراحي ميں بہت زيادہ خطرات تھے ،خاص طورسے اس صورت ميں جب معاملہ سر اور چہرے کا ہو، اس ليے ناگزير حالت ہي ميں اس کو انجام ديا جاتا تھا-
انيسويں صدي ميں پلاسٹک سرجري کو کچھ زيادہ رواج ملا اور اس ميدان ميں نئي نئي تکنيکيں ايجاد ہوئيں اور نئے نئے تجربات کيے گئے- اس کا اندازہ درج ذيل تجربات سے بہ خوبي کياجاسکتا ہے جنھيں اس ميدان کے اہم سنگ ہائے ميل کہنا بے جا نہ ہو گا-
1815ء ميں Joseph Carpue نے ايک برطانوي فوجي آفيسرکي پلاسٹک سرجري کي جو mercury treatment کے سمّي اثرات کے نتيجے ميں اپني ناک گنوا بيٹھا تھا-
1818ء ميں جرمن سرجن Carl Ferdinand Von Graefe (1787-1840) نے اپني کتاب Rhinoplastic شائع کي- اس ميں اس نے اطالوي طريقۂ جراحي ميں تبديلي کرتے ہوئے Original Delayed Pedicle Flap کے بجائے بازو کي کھال لگا نے (Free Skin graft) کا طريقہ ايجاد کيا-
1827ء ميں امريکن سرجن Dr. John Peter Mattauer(1787-1875) نے اپنے ہي تيار کردہ آلات سے تالو ميں شگاف (Cleft Palate) کا پہلا آپريشن کيا-
1845ء ميں (Johann Friedrich Dieffenbach (1792-1847) نے ناک کي پلاسٹک سرجري پر ايک مبسوط تحرير لکھي جس کا عنوان Operatiue Chirurgie تھا- اس ميں اس نے اصلاح شدہ ناک کے جمالياتي مظہر کو بہتر بنانے کے ليے دوبارہ آپريشن کا تصور پيش کيا-
1889ء ميں امريکن سرجن George Monks(1853-1933) نے درميان ميں پچکي ہوئي ناک (Saddle nose) کے نقص کو دور کرنے کے ليے دوسرے مقام کي ہڈي استعمال کرنے (Heterogeneous free bone grafting) کا کامياب تجربہ کيا-
1891ء ميں کان، ناک اور حلق کے امراض کے امريکي ماہر John Orlando Roe (1848-1915) نے ايک نوجوان خاتون کي ناک کے پچھلے ابھار کو کم کرنے کے ليے آپريشن کيا-
1892ء ميں Robert weir نے پچکي ہوئي ناک (Sunken nose) درست کرنے کے ليے بطخ کے سينے کي ہڈي (Duck sternum) استعمال کرنے کا تجربہ (Xenograft) کيا، ليکن اس ميں اسے کاميابي نہيں ملي-
1896ء ميں جرمن سرجن (1848-1926) James Adolf Israel نے امريکن سرجن George Monks کے مثل ناک کے نقص کو دور کرنے کے ليے دوسرے مقام کي ہڈي استعمال کي-
1898ء ميں جرمن آرتھو پيڈک سرجن Jacques Joseph(1843-1907) نے ناک کے ابھار کو کم کرنے (Reduction Rhinoplasty) کا اپنا پہلا تجربہ شائع کيا-
تحرير: ڈاکٹر محمد رضي الاسلام ندوي
پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
روزہ اور خون کے روغني مادے