نظام اعصاب پر روزہ کے مفيد اثرات
نظام اعصاب پر روزہ کے مفيد اثرات :
روزہ کے دوران اکثر لوگوں کو غصے اور چڑ چڑيپن کا مظاہرہ کرتے ديکھا گيا ہے جس کا سبب لوگ روزے کو گردانتے ہيں مگر اس بات کو يہاں پر اچھي طرح سمجھ لينا چاہيے کہ ان باتوں کا روزہ اور اعصاب سے کوئي تعلق نہيں ہوتا اس قسم کي صورت حال انسانوں کے اندر انانےت (egotistic) يا طبيعت کي سختي کي وجہ سے ہوتي ہے دوران روزہ ہمارے جسم کا اعصابي نظام بہت پر سکو ن اور آرام کي حالت ميں ہوتا ہے نےز عبادات کي بجا آواري سے حاصل شدہ تسکےن ہماري تمام کدورتوں اور غصے کو دور کرديتي ہيں اس سلسلے ميں زيادہ خشوع وخضوع اور اللہ کي مرضي کے سامنے سرنگوں ہونے کي وجہ سے تو ہماري پريشانےاں بھي تحليل ہو کر ختم ہو جاتي ہيں اس طرح دور حاضر کے شديد اور پيچيدہ مسائل جو اعصابي دباو کي صورت ميں ہوتے ہيں تقريباً ناپيد ہو جاتے ہيں- روزہ کے دوران چونکہ ہماري جنسي خواہشات عليحدہ ہوجاتي ہيں چنانچہ اس وجہ سے بھي ہمارے اعصابي نظام پر کسي قسم کے منفي اثرات مرتب نہيں ہوتے -
روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگي پيدا ہوتي ہے اس سے دماغ ميں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہو جاتا ہے جو کہ صحت مند اعصابي نظام کي نشاندہي کرتا ہے اس کے علاوہ انساني تحت الشعورجو رمضان کے دوران عبادات کي مہربانيوں کي بدولت صاف شفاف اور تسکين پذير ہو جاتا ہے اعصابي نظام سے ہر قسم کے تناو اور الجھن کو دور کرنے ميں مدد کرتا ہے -
خلےات (Cells) رمضان المبارک کا بے چيني سے انتظار کرتے ہيں :
روزہ کا سب سے اہم اثر جسماني خليوں کے درميان اور اندورني سيال مادوں کے درميان توازن کو قائم رکھنا ہوتا ہے چونکہ روزہ کے دوران مختلف سيال مقدار ميں کم ہوجاتے ہيں جس سے خليوں کے عمل ميں بڑي حد تک سکون پيدا ہو جاتا ہے اسي طرح Epithelial Cells جو جسم کي رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہيں ان کو بھي صرف روزہ کے ذريعے بڑي حد تک آرام اور سکون ملتا ہے جس کي وجہ سے ان کي صحت مندي ميں اضافہ ہوتا ہے -علم خلياتيات کے نقطہ نظر سے يہ کہا جا سکتا ہے کہ لعاب بنانے والے غدود ، گردن کے غدود تيموسيہ اور لبلبہ کے غدود شديد بے چيني سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہيں تاکہ روزہ کي برکت سے انہيں کچھ سستانے کا موقع مل جائے اور آئندہ مزيد کام کرنے کے لئے اپني توانائيۆں کو اکھٹا کر سکيں-
نظام ہضم پر روزہ کے اثرات :
نظام ہضم ہمارے جسم کا سب سے اہم نظام ہے اس کے اہم اعضاء لعابي غدود ، زبان ، گلا ، غذائي نالي ، معدہ ، بڑي آنت، چھوٹي آنت، مري ، جگر اور لبلبہ وغيرہ خود بخودايک نظام سے عمل پذير ہوتے ہيں جيسے ہي ہم کچھ کھاتے ہيں يہ خود کار نظام حرکت ميں آجاتا ہے اور اس کا ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کر ديتا ہے اور ظاہر ہے يہ سارا نظام چوبيس گھنٹے مصروف عمل رہتا ہے تو اعصابي دباو اور غلط قسم کي خوراک کي وجہ سے يہ گھس جاتا ہے تب روزہ اسکے لئے ترياق ثابت ہوتاہے اور ايک ماہ تک اس سارے نظام پر آرام طاري کر ديتا ہے مگر روزہ کا سب سے حيرتناک اثر جگر پر يہ ہوتا ہے کہ اسے روزانہ چھ گھنٹوں تک آرام کرنے کا موقع مل جاتا ہے توانائي بخش کھانے کے اسٹور کرنے کے عمل سے بڑي حد تک آزاد ہو جاتا ہے اور اپني توانائي خون ميں گلوبےولين (جو جسم کو محفوظ رکھنے والے مناعتي نظام کو طاقت ديتاہے ) کي پيداوار پر صرف کر سکتا ہے -
روزہ نظام ہضم کے سب سے حساس حصے گلے اور غذائي نالي کو تقويت ديتا ہے اس کے اثر معدہ سے نکلنے والي رطوبتيں بہتر طور پر متوازن ہو جاتي ہيں جس سے تيزابيت (Acidity) جمع نہيں ہوتي اس کي پيداوار رک جاتي ہے - معدہ کے رياحي دردوں ميں کافي افاقہ ہوتا ہے قبض کي شکايت رفع ہو جاتي ہے اور پھر شام کو روزہ کھولنے کے بعد معدہ زيادہ کاميابي سے ہضم کا کام انجام ديتا ہے - آنتوں پر روزہ کے بہت مفيد اثرات ظاہر ہوتے ہيں يہ آنتوں کو توانائي بخشتا ہے انٹريوں کے جال کو نئي توانائي اور تازگي عطا کرتا ہے آنتوں کے ہاضم رسوں کي خرابي کو دور کرتا ہے اس طرح ہم روزہ رکھ کر ان تمام بيماريوں کے حملے سے محفوظ ہو جاتے ہيں جو ہضم کرنے والي ناليوں پر ہوتے ہيں -
تحرير: ڈاکٹر عاصم فاروق انصاري
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
سبزيوں کا گوشت