جناب ھوبر اور ايران کا اسلامي انقلاب
11- دوسرا نکتہ اسلامي انقلاب کي کاميابي کا موقع ، شرائط اور وقت ہے - جناب ھوبر اس بات کے معتقد ہيں کہ اگر دس يا بيس سال بعد يعني تقريبا 1377 ہجري شمسي ميں انقلاب آتا تو اس صورت ميں يہ معلوم نہيں تھا کہ اس وقت تک ايراني ملت ميں کس حد تک ديني اعتقادات زندہ بچ جانے تھے - دين کي تبليغ کو مٹانے کي غير مذھبي پاليسيوں پر عمل پيرا رہ کر شاہ ايران کے لوگوں ميں مذھبي رحجان کو کم کرکے ان ميں ايک تبديلي لا سکتا تھا - اگرچہ يہ دعوي بہت دور کي بات نظر آتي ہے مگر کلي طور پر ہم اس کو رد بھي نہيں کر سکتے ہيں - اس ليۓ يہ بہت حد تک ممکن تھا کہ چند لمبے پروگراموں کے ذريعے لوگوں کي زندگيوں سے دين کي اہميت اور کردار کو کم کر دے اور بجاۓ اس کے کہ ايران ايک اسلامي ملک ہوتا کسي اور سے وابستہ ہو جاتا مگر ايسا نہ ہو سکا - کيا ايران کي قسمت کے فيصلے اور بادشاہ امريکي تعين نہيں کرتے تھے ؟ تصور کريں کہ ايران سے ترکي کي طرز کا ايک ملک بنائيں ، ترکي جو آج اکثريت مسلمان آراء رکھنے کے باوجود نظام حکومت ، مجلس ، مسلح افواج اور سب صاحب قدرت منتظمين نظام الحاد کو جاري رکھنے کي تاکيد کرتے ہيں -
ليکن ايران ميں ترکي کے مقابلے ميں روحانيوں اور علماءکرام کا نفوذ اور طاقت ملک کے ڈھانچے ميں زيادہ تھا اور دين کي جگہ ايران ميں ترکي کے مقابلے ميں مختلف تھي ليکن اس کا مطلب يہ نہيں ہے کہ موجودہ دور ميں سينہ زني ، نوحہ خواني ، عاشورا کے مراسم کے منعقد ہونے ميں آساني ہو گئي ہے جو کہ مذھبي زندگي کي طرف ايک متحرک زندگي کي علامت ہے بلکہ جديد نعرے ، نۓ راستے سامنے آۓ اور نۓ افراد نے اس کے اثرات قبول کيۓ - دوسري طرف ٹي وي ، سينما ، نشر و اشاعت اور کتابوں ميں ثقافتي حالت حتي کہ احتماعات کو اچھي طرح سے ياد کيا جا سکتا ہے - ايسي صورت ميں معلوم نہيں تھا کہ انقلاب اتني جلدي نتيجہ خيز ثابت ہو گا -
( جاري ہے )
تحرير: سيد اسد الله ارسلان
متعلقہ تحريريں:
روس اور اسلامي ايران