نيکوکاروں کو ان کي نيکو کاري کي اور مجرموں کو ان کي بدکرداري کي جزا اور سزا ملے گی
ايک تيسري جگہ ارشاد فرمايا گيا ہے :(ام حسب الذين اجترحوا السيئات ان نجعلھم کالذين آمنوا وعملوا الصلحت سواء محياھم ومماتھم ساء مايحکمون)”¤ ( الجاثيہ:21)
يہ مجرمين جنہوں نے بد کاريوں کو اپنا پيشہ بنا ليا ہے ، کيا وہ گمان کرتے ہيں کہ ہم ان کو اپنے ان نيک بندوں کي طرح کرديں گے ، جو ايمان لائے اور جنہوں نے اعمال صالحہ کيے اور دونوں گروہوں کا انجام اور جينا مرنا يکساں ہو گا ( اوراپنے اپنے اعمال کا ان کو کوئي بدلہ نہيں ملے گا؟) بالکل غلط اور بيہودہ ہے ، ان کا يہ خيال ( ايسا ہر گز نہيں ہو سکتا)-
بہرحال عقل سليم بھي کہتي ہے اور قرآن حکيم کا بھي ارشاد ہے کہ نيکوکاروں پرہيز گاروں کو ان کي نيکو کاري اور پرہيز گاري کي اور مجرموں بدکاروں کو ان کي بدکرداري کي جزا اور سزا ملني ضروري ہے اور جب وہ اس دنيا ميں نہيں مل رہي ہے ، تو اس دنيوي زندگي کے بعد کوئي اور زندگي ،کوئي اور عالم ہونا چاہيے ، جہاں يہ جزا اور سزا ملے اور الله تعاليٰ کي صفتِ عدل کا تقاضا پورا ہو- بس وہي عالم آخرت ہے-
ہاں !يہ سوال پيدا ہو سکتا ہے کہ اچھے اور برے اعمال کي جزا اور سزا کو ، يعني ثواب اور عذاب کو عالم آخرت کے ليے کيوں موخر کيا گيا اور کيوں نہ اسي دنيا ميں اس کا بھي حساب بے باق کر ديا گيا؟ اس کا جواب يہ ہے کہ الله تعاليٰ اپنے فرماں بردار اور نيکوکار بندوں کا جو صلہ اور انعام دينا چاہتا ہے اور جيسي لذت اور مسرت سے بھرپور غير فاني زندگي ان کو بخشنا چاہتا ہے، جو اس کي شانِ رحمت اور صفت کريمي کا تقاضا ہے ، اس کا اس دنيا ميں کوئي امکان ہي نہيں ہے اور اسي طرح نافرمان اور باغي وسرکش مجرموں کو وہ سخت سزا اور لرزہ خيزعذاب دينا چاہتا ہے ، جو اس کي شان جلالي اور صفت قہاري کا تقاضا ہے، اس کي برداشت کي بھي ہماري اس دنيا ميں طاقت نہيں ہے، يعني وہ ايسا سخت اور المناک ہے کہ اگر اس دنيا ميں اس کا ظہور ہو جائے تو يہاں کا سارا چين وآرام ختم ہو جائے - يہ پوري دنيا سوخت ہو کر رہ جائے - ہماري يہ دنيا تو بہت ہي کمزور اور ناپائيدار دنيا ہے -
آخرت کے مقابلہ ميں ہماري اس دنيا کي حيثيت بالکل وہ ہے ، جو ہماري اس دنيا اور اس زندگي کے مقابلے ميں ماں کے پيٹ والي زندگي کي تھي - اس دينا ميں آنے سے پہلے ہر آدمي چند مہينے اپني ماں کے پيٹ ميں رہ کے آيا ہے - وہ اس کي سب سے پہلي دنيا تھي اور بڑي محدود دنيا تھي ، الله تعاليٰ اولاد آدم کو جو کچھ عطا فرمانا چاہتا تھا او رجہاں تک پہنچانا چاہتا تھا وہ ماں کے پيٹ والي اس پہلي دنياميں ممکن نہيں تھا، اسي ليے انسان کو اس دنيا ميں لايا گيا ، بالکل اسي طرح سمجھنا چاہيے کہ اس دنيوي زندگي کي نيک کرداري کے صلہ ميں ، الله تعاليٰ اپنے فرماں بردار اور پرہيز گار بندوں کو جن انعامات سے نوازنا چاہتا ہے اور لذت ومسرت سے بھرپور جو غير فاني زندگي ان کو بخشا چاہتا ہے اور علي ہذا سرکش مجرموں اور نافرمانوں کو جو سخت سزا اور ابدي عذاب دينا چاہتا ہے - وہ ہماري اس فاني دنيا ميں ممکن ہي نہيں ، اس دنيا کے خاتمہ کے بعد عالم آخرت کا برپا ہونا او رجنت ودوزخ کا وجود ميں آنا ضروري ہے ، تاکہ الله تعاليٰ کي صفات، کمال عدل وانصاف ، انعام واحسان رحمت ورافت اور قہاريت وجباريت کا بھرپور ظہور ہو-
آخرت کے بارے ميں ہماري عقل کي پرواز بس يہيں تک ہے - آگے قيامت ، حشر، جنت ودوزخ اور وہاں کے ثواب وعذاب کي تفصيلات بس وحي کے ذريعہ ہي معلوم ہو سکتي ہيں اور قرآن مجيد اور احاديث ميں ان کا تفصيلي بيان ہے -
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
موت کي ماہيت