• صارفین کی تعداد :
  • 3560
  • 3/23/2012
  • تاريخ :

قرآن مجيد ولايت اميرالمؤمنين (ع) کا گواہ1

بسم الله الرحمن الرحیم

"انما وليکم الله و رسوله و الذين آمنواالذين يقيمون الصلوه و يوتون الزکوه و هم راکعون"- (1)

تمہارا حاکم و سر پرست بس اللہ ہے اور اس کا پيغمبر اور وہ ايمان رکھنے والے جو نماز ادا کرتے ہيں اور رکوع کي حالت ميں خيرات ديتے ہيں-

اسلام نے انساني اوہام اور بے بنياد اعتقادات کا خاتمہ کرديا اور معاشرتي لحاظ سے عقل ميں وہم کے اثرات کو اور حقيقت ميں خيال کے اثرات کو مٹا ديا اور حق کو علم و منطق کا محور و بنياد قرار ديا اور اسلام نے قرار ديا کہ عقيدے کي بنياد عقل قطعي يا نقل قطعي ہوتي ہے جس کو ہر حال ميں علم و دانستگي پر ختم ہونا چاہئے جس ميں کسي خطا اور تخلف کي گنجائش نہيں ہے اور اس اصول کے مطابق اکثريت يا اقليت کا اس ميں کوئي کردار نہيں ہے- عقلمند اور رشيد قوم وہ ہے جو حق کے تابع ہو خواہ وہ اقليت ميں ہو خواہ اکثريت ہے-

اميرالمؤمنين عليہ السلام کي خلافت بلا فصل اکثريت يا اقليت کي رائے کے برعکس، عقلي ضروريات اور نقلي بديھيات ميں سے ہے اور يہ بحث کبروي لحاظ سے بھي اور تطبيقي لحاظ سے بھي اعلي ترين بحث ہے جس کي طرف توجہ دينا تمام مسلمانوں کے لئے ضروي ہے-

سب جانتے ہيں کہ "ولايت" قرآن اور اسلام کے احکام کے نفاذ کي ضامن ہے اور ولايت تمام انساني ميں شئون و معاملات ميں دين کے عملياتي (Operational) ہونے کي ضامن ہے- دين کے نفاذ کے لئے ضامن کي ضرورت ہے اور دين کے نفاذ کے ضامن کو تمام ديني علوم و معارف پر مسلط ہونا چاہئے بلکہ دين کو سب سے پہلے اسي ضامن کے اندر مجسم ہونا چاہئے اور اس کو دين کي عملي شکل کا آئينہ دار ہونا چاہئے اور عقل و نقل يعني منطق اور قرآن و سنت کے مطابق ايسا ضامن رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے بعد اميرالمؤمنين علي عليہ السلام کے سوا کوئي بھي نہيں ہوسکتا-

-------

مآخذ

1- سورہ مائدہ آيت 55-