حضرت اميرالمۆمنين علي بن ابيطالب (ع) کي ولايت و امامت 2
حضرت اميرالمۆمنين علي بن ابيطالب (ع) کي ولايت و امامت 1
ايت اللہ العظمي حسين مظاہري
عقل و منطق کے مطابق، ظاہر ہے کہ جو سب سے افضل ہے اسي کو ـ خاص طور پر خلافت جيسے اہم مسئلے ميں ـ مقدم ہونا چاہئے اور اگر عقل و منطق کے اس قاعدے کے لئے کوئي اور "آيتِ احقيّت" کے سوا کوئي اور دليل نہ ہوتي پھر بھي ثابت ہوتا کا قرآن شريف اور عقل کے مطابق اميرالمۆمنين سلام اللہ عليہ ہي رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے خليفۂ بِلافصل ہيں:
و از نظر عقلى، بديهى است كه هر كس افضل است بايد مقدّم باشد، بويژه در امر مهمّى چون خلافت و ولايت و اگر براى اين قاعده كلّى، غير از «آيه أَحَقّيّت» دليلى نداشتيم، كافى بود كه بدانيم از نظر قرآن شريف و «اَفَمَنْ يَهْدى اِلَى الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ يُتَّبَعَ اَمَّنْ لا يَهِدّى اِلاَّ اَنْ يُهْدى فَما لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ»- [2]
تو کيا جو حق کي طرف رہنمائي کرے، وہ اس کا زيادہ حق دار ہے کہ اس کي پيروي کي جائے يا وہ جو خود اس وقت تک راستا نہ پائے جب تک کہ اسے راستا دکھايا نہ جائے، تو تمہيں کيا ہو گيا ہے ؟ کيسے فيصلے کرتے ہو؟
دوسري دليل: شيعہ اور سني علماء اور محدثين کے اقرار اور پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي متواتر احاديث کے مطابق رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کو جب بھي مناسب موقع ملا اميرالمۆمنين سلام اللہ عليہ کي خلافت لوگوں کے گوش گذار کرتے رہے تھے-
شيعہ اور سني منابع ميں تواتر کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ جب آيتِ انذار: "وَ اَنْذِرْ عَشيرَتَكَ الْاَقْرَبينَ"- [3]
"اور اپنے قريبي خاندان والوں کو انديشہ عذاب سے باخبر کيجئے"، نازل ہوئي تو رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے نے اپني قوم کے عمائدين کو بلوايا ---
.............
مآخذ:
2- سورہ يونس آيت 35-
3- سورہ شعراء آيت 214-