عيد غدير سيرت اہل بيت عليہم السلام کے آئينے ميں 1
عيد غدير خم اٹھارہ ذوالجحۃ الحرام سنہ دس ہجري
بقلم: جواد محدثى
عيد غدير کا جشن رسول اللہ (ص) کے زمانے سے منايا جاتا رہا ہے اور امام صادق اور امام رضا عليہ السلام نے اس عيد اور اس جشن کو آشکار کيا اور پھر اميرالمۆمنين (ع) رسول اللہ (ص) کے بعد اس عيد کے احياء کے امين تھے-
عيد غدير عيد کيوں ہوئي؟ اس لئے کہ اس دن کفار اسلام پر غلبہ پانے سے مايوس ہوگئے، دين کامل ہوا، نعمت مکمل ہوئي اور رسالت کا مکتب امامت کے سانچے ميں جاري و ساري ہوا:
الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا- (1)
آج کافر لوگ تمہارے دين کي طرف سے نااُميدہو گئے ہيں تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو- آج ميں نے تمہارے دين کوکامل کر ديااور تم پر اپني نعمت پوري کر دي اور تمہارے لئے اسلام کو بحيثيت دين کے پسند کر ليا.
اسي روز رسول اللہ نے حکم ديا کہ: صاحب ولايت کو ولايت کي مبارکباد ديں اور ان کے ہاتھ پر بيعت کريں- اسي دن رسول اللہ (ص) نے خوشي منائي اور فرمايا: "الحمدلله الذى فضلنا على جميع العالمين»؛ حمد و ثناء ہے اللہ کے لئے جس نے ہم کو تمام جہانوں پر برتري عطا فرمائي-
مذکورہ بالا آيت ميں اللہ تعالي نے بھي اس روز ولايت کے اعلان سے اپني خوشنودي کا اعلان فرمايا جو اس بات کي دليل ہے کہ يہ دن عيد اور خوشي منانے کا دن ہے- يہي نہيں بلکہ عمر بن خطاب کي خلافت کے دور ميں عيسائي طارق بن شہاب نے خليفہ سے کہا: اگر يہ آيت امت مسيح (ص) کے لئے اترتي تو ہم اس دن کو عيد مناتے؛ عمر نے اس مسيحي کي بات کي ترديد نہيں کي بلکہ اس کي بات کي تصديق کردي- (2)
--------
مآخذ:
1. سورہ مائدہ آيت 3-
2ـ بحوالہ الغدير جلد 3 علامه عبدالحسين امينى-