رسول اللہ (ص) کي جان و جانشين قرآن کي نظر ميں 2
... ليکن ياد رکھو اگر پيغمبر اسلام (ص) اپنے خاص اور قليل افراد کے ساتھ ميدان ميں آئيں تو جان لو کہ وہ خدا کے نبي (ص) ہيں اور مباہلے سے اجتناب کرو کيونکہ مباہلے کي صورت ميں نيست و نابود ہوجاؤگے اور جب وہ ميدان مباہلہ ميں حاضر ہوئے تو ديکھا کہ "رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم حسين (ع) کو گود ميں لئے حسن (ع) کا ہاتھ پکڑ کر آرہے ہيں جبکہ علي اور فاطمہ سلام اللہ عليہما بھي ساتھ آرہے ہيں اور آپ (ع) اپنے ہمراہ آنے والے چار افراد سے فرما رہے ہيں کہ «ميں دعا کرتا ہوں تم آمين کہو»"- عيسائيوں نے يہ منظر ديکھا تو ان وحشت طاري ہوئي اور مباہلے سے دست کشي اختيار کرتے ہوئے آپ (ص) سے مصالحت کرنے اور آپ (ص) کو جزيہ ادا کرنے کے لئے تيار ہوئے- (1)
اکثر سني مفسرين اور محدثين نے بھي يہ واقعہ اپني کتابوں ميں بيان کيا ہے (2) اور حتي کہ سني مفسر زمخشري نے اپني تفسير "الکشاف" ميں يہ روايت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ "يہ آيت قوي ترين دليل ہے جو اصحاب کساء (پنجتن آل عبا) کي فضيلت کو ثابت کرتي ہے- (3) [گوکہ تاريخ طبري اور البدايہ والنہايہ کے مؤلفين کے مطابق] اس سے بھي بالاتر اس آيت کے متن اور مضمون ميں غور کريں تو اس سے علي (ع) کي ولايت اور خلافت ثابت ہوتي ہے وضاحت يوں کہ "اس آيت ميں امام حسن اور امام حسين (ع) کا ذکر "ابنائنا" يعني پيغمبر (ص) کے بيٹوں کے عنوان سے، سيدہ فاطمہ سلام اللہ عليہا کا ذکر "نسائنا" يعني پيغمبر (ص) سے تعلق رکھنے والي خواتين کے عنوان سے، اور علي عليہ السلام کا ذکر "انفسنا" يعني پيغمبر (ص) کي جان کے عنوان سے، آيا ہے"
------------
1. مجمع البيان، ذيل آيه 61 آل عمران.
2. فضائل الخمسه فمن الصحاح السته، ج 1، ص 29.
3. تفسير الکشاف، ذيل آيه 61 آل عمران.