رسول اللہ (ص) کي جان و جانشين قرآن کي نظر ميں 1
لفظ مباہلہ دو افراد يا دو فريقوں کے درميان نفرين کے معني ميں استعمال ہوا ہے ايسے دو افراد يا گروہوں کے درميان جو بات چيت کے لئے بيٹھتے ہيں تا ہم ايک دوسرے کا عقيدہ اور نظريہ قبول نہيں کرتے اور آخرکار دونوں اتفاق کرتے ہيں کہ دعا کريں کہ جھوٹے اور باطل کے حامي کو نيست و نابود فرمائے-
اسلام ميں مباہلہ کي روايت کچھ يوں ہے کہ نجران کے ساٹھ عيسائي رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے بات چيت کرنے کي غرض سے مدينہ منورہ ميں داخل ہوئے ليکن گفتگو کے دوران عيسي عليہ السلام کي ولادت سميت کئي مسائل پر آپ (ص) کي رائے قبول کرنے کے لئے تيار نہ ہوئے چنانچہ اللہ نے سورہ آل عمران کي آيت 61 نازل فرمائي جس ميں ارشاد باري ہے:
«فَمَنْ حَآجَّکَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَآءَنَا وَأَبْنَآءَکُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَکُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَي الْکاذِبِينَ؛ (1) اب آپ کو ملنے والي علمي دلائل کے بعد، جو شخص اس بارے ميں آپ سے کٹ حجتي اور بحث کرے‘ تو کہہ ديجئے کہ آؤ! ہم بلاليں اپنے بيٹوں کو اور تمہارے بيٹوں کو اور اپني عورتوں کو اور تمہاري عورتوں کو اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو- پھر مباہلہ (اور نفرين کريں) اور اللہ کي لعنت قرار ديں جھوٹوں پر»-
رسول اللہ (ص) نے عيسائيوں کو مباہلے کي دعوت دي تو انھوں نے مشورے کے بعد آمادگي کا اعلان کيا تاہم عيسائي بزرگوں نے مباہلہ کے لئے جانے والے افراد کو ہدايت کي کہ اگر پيغمبر (ص) بڑے لاؤ لشکر اور شور و غل کے ساتھ ميدان مباہلہ ميں آئيں تو بلاخوف و خطر ان سے مباہلہ کرو کيونکہ ان کا دعوي حقيقت پر مبني نہيں ہے---
--------------
1- سورہ آل عمران ـ 61:- اب جو شخص اس بارے ميں آپ سے کٹ حجتي کرے‘اس کے بعد کہ يہ علمي دلائل آپ کے پاس آگئے تو کہہ ديجيے کہ آؤ!ہم بلاليں اپنے بيٹوں کو اور تمہارے بيٹوں کو اور اپني عورتوں کو اور تمہاري عورتوں کو اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو- پھر التجا کريں اور اللہ کي لعنت قرار ديں جھوٹوں پر-