• صارفین کی تعداد :
  • 3860
  • 3/23/2012
  • تاريخ :

اليوم اکملت لکم دينکم ميں اليوم سے مراد 2

بسم الله الرحمن الرحیم

"اليوم اکملت لکم دينکم" ميں "اليوم‏" سے مراد

بقلم: استاد شہيد مرتضي مطہري

آج (يا پھر کہتے ہيں کہ "اس روز") کفار تمہارے دين کي طرف سے نا اميد ہوگئے- اس آيت کو ہم قرآن کي بعض ديگر آيات شريفہ سے ملا ديتے ہيں جو مسلمانوں کو ڈرا ديتي ہيں اور کہتي ہيں کہ "کفار مسلسل سازشوں ميں مصروف ہيں اور وہ چاہتے ہيں کہ تمہيں تمہارے دين سے منحرف کرديں اور وہ تمہارے دين کے خلاف اقدام کرتے رہتے ہيں ... ادھر اس آيت ميں ہم ديکھتے ہيں کہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے کہ وہ آج تمہارے دين سے مايوس اور نااميد ہوگئے، آج سے تمہارے دين کے خلاف کفار کي سرگرمياں ختم ہوگئيں "فَلاَ تَخْشَوْهُمْ"، آج کے بعد ان کي جانب سے تشويش نہ رکھو (اور ان سے مت ڈرو) "وَاخْشَوْنِ" اور صرف مجھ سے ڈرو...

پس "الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ" کے معني يہ ہيں کہ اسلامي معاشرے سے باہر رہنے والے کفار اس دن کے بعد تمہارے دين سے مايوس ہوگئے ہيں [اور وہ اب تمہارے دين کو ختم کرنے سے نا اميد ہوچکے ہيں] ان کي جانب سے اب عالم اسلام کو کوئي خطرہ لاحق نہيں ہے اسي لئے ان مجھ سے ڈرو يعني اپنے آپ سے ڈرو-

اے جماعت مسلمين! آج کے بعد اگر کوئي خطرہ ہے تو وہ صرف يہ ہے کہ اس نعمت کے ساتھ اچھا سلوک روا نہ رکھ سکو، اور کفران نعمت کا ارتکاب کرو، اور تم وہ استفادہ نہ کرسکو جو تمہيں کرنا چاہئے اور نتيجے کے طور پر تمہارے اوپر ميرا يہ قانون نافذ ہوجائے کہ " إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ " (3) اس دن کے بعد اسلامي معاشرے کو بيروني دنيا سے کوئي خطرہ لاحق نہيں ہے، کيونکہ امام اور نظام کے محافظ کا تعين ہوچکا، خطرہ اندر سے ہے"- (4)

----------

مآخذ:

3- رعد ـ 11 = يقينا اللہ نہيں بدلتا اس حالت کو جو کسي قوم کي ہے جب تک وہ خود اپنے ميں تبديلي پيدا نہ کرے.

4- امامت و رهبرى، صص 132 -137.