ولايت اميرالمؤمنين قرآن کي روشني ميں4
... يعني اميرالمؤمنين علي (ع) کي ولايت وہي رسول اللہ کي ولايت ہے اور رسول اللہ (ص) اور اميرالمؤمنين (ع) کي ولايت اسي ولايت کي شعاع ہے- يہ دو ولايتيں نہيں ہيں- اگر يہ ولايتيں مختلف قسموں کي ہوتيں- تو خداوند متعال "انما" کا ذکر نہ فرماتا اور آيت ميں اوليائکم کا لفظ استعمال فرماتا اور وضاحت يوں ہوتي کہ:
1- تمہارے سرپرست خدا
2- رسول اور
3- علي بن ابي طالب عليہ السلام ہيں-
خداوند متعال نے جمع کا لفظ استعمال نہيں کيا؛ بلکہ فرماتا ہے کہ تمہارے ولي ہيں- ظاہر ہے کہ ايک سرپرستي اور ايک ولايت سے زيادہ ولايتيں نہيں ہيں- ہم [غيبَتِ امام (ع) کے زمانے ميں] کہتے ہيں: ولي فقيہ حضرت مہدي عليہ السلام کي ولايت کي شعاع ہے يعني ولايت فقيہ امام زمانہ کي ولايت کي آئينہ دار ہے- ولي فقيہ کے پاس وہ سب کچھ ہے جو امام زمانہ (ع) کے پاس ہے تا ہم امام زمانہ (ع) معصوم ہيں ليکن فقيہ معصوم نہيں ہے، بلکہ عادل ہے-
يہ جو اللہ تعالي نے فرمايا ہے: "وَلِيُّكُمُ" اور نہيں فرمايا کہ: "اوليائكم"، اس سے بخوبي ظاہر ہے کہ رسول اللہ اور اميرالمؤمنين کي ولايت کي روح اسي ولايت الہي کي شعاع ہے-
تيسرا مسئلہ: قرآن ميں 27 مرتبہ نماز اور زکواة کا ذکر ساتھ ساتھ آيا ہے يعني نماز ادا کرنا اور زکواة بھي دينا ليکن اميرالمؤمنين عليہ السلام کے سلسلے ميں نماز اور زکواة الگ الگ نہيں ہيں بلکہ ايک دوسرے کے اندر ہيں- "ايک دوسرے کے ساتھ" اور "ايک دوسرے کے اندر اور مختلط" ميں فرق ہے- اللہ تعالي قرآن ميں 27 مرتبہ فرمايا: "يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ"، (نماز قائم کرتے ہيں اور زکواة ديتے ہيں)-
ايک دفعہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم مسجد ميں تشريف لائے اور کئي افراد کو نام لے کر، نکال باہر کيا- لوگوں نے پوچھا: ...
---------