ايران کے اسلامي انقلاب کے خلاف ہر سازش ناکامي ہو گي (12)
ميں جب محمود احمد ي نژاد ايران کے صدر کے عہدہ کے لئے منتخب ہوئے تو ميں لندن ميں تھا - سياسي مبصرين کے ايک ادارہ کے ذمہ دار ان نے مجھ سے ايراني سياست کے ماہر کے طور پر سوال کيا کہ آخر ہاشمي رفسنجاني جيسا اہم رہنما انتخابات ميں بري طرح سے کيوں ناکام ہوگيا- ميں نے فوري طور پر جواب دياکہ ايران کے انتخابات ميں جس اميدوار کو بھي مغربي ممالک حمايت ديں گے اس کا ناکام ہونا يقيني ہے - ميں نے مزيد کہا کہ ايراني عوام کي يہ خوبي ہے کہ وہ آپس ميں ہر قسم کا اختلاف ظاہر کر سکتے ہيں ليکن جس معاملہ ميں بھي بيروني طاقتيں مداخلت کرتي ہيں اسے وہ قطعي تسليم نہيں کرتے اور پوري طرح سے غير ملکي طاقتوں کي خواہش کے خلاف رائے ديتے ہيں -
ايران کے خلاف پروپيگنڈہ کرنے کے لئے کئي ريڈيو اور ٹيلي ويژن اسٹيشن امريکہ اور کئي ديگر مغربي ممالک سے سرگرم ہيں مجھے لندن ميں بتايا گيا کہ امريکي حکومت نے ايران مخالف پروپيگنڈہ کے لئے جو رقم مختص کي ہے اس ميں سے بڑي رقم وائس آف امريکہ کي فارسي نشريات پر خرچ کي جا رہي ہے- بي بي سي کو اميد تھي کہ اسے اس رقم ميں سے خطير رقم ملے گي ليکن اميد کے مطابق اسے اپنا حصہ نہيں مل سکا - البتہ بي بي سي فارسي ٹيلي ويزن چينل جنوري 2009ميں شروع ہوگيا ہے - اکثر فارسي ريڈيو اور ٹيلي ويژن پروگراموں کے لئے ايران نژاد حکومت مخالف سياسي پناہ گزينوں کو استعمال کيا جاتا ہے-
2009ميں ايران ميں صدارتي انتخابات کے بعد احمدي نژادکے مخالفين ميرحسين موسوي اور مہدي کروبي نے ووٹوں کي گنتي ميں خورد برد کے الزامات لگائے تھے- انتخابات ميں محمود احمدي نژاد کو تقريباً 63 فيصد او مير حسين موسوي کو تقريبا 34 فيصد ووٹ ملے تھے جبکہ باقي 3فيصد ووٹ ديگر اميدواروں ميں تقسيم ہو ئے-
انتخابات ميں خوردبرد کے الزامات کے جواب ميں آيت اللہ خامنہ اي نے کہا تھا کہ پہلي بات تو يہ کہ ايران کے انتخابي نظام ميںايسي خامي نہيں ہے اور دوسرے يہ کہ خورد برد کے ذريعہ ايک کروڑ ساڑھے بارہ لاکھ ووٹوں کا فرق نہيں کيا جا سکتا بہرحال ہر شکايت کے ازالہ کے لئے سرکاري نظام موجود ہے جس کے ليے سڑکوں پر احتجاج کي قطعي ضرورت نہيں تھي-
شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
ايران کے اسلامي انقلاب کے خلاف ہر سازش ناکامي ہو گي (8)