ايران کے جنوبي ساحلوں کي سير ( حصّہ دوّم )
تعميراتي طرز کے لحاظ سے عمارت پر ہندو مذہب کے طرز تعمير کا رنگ غالب ہے - بنيادي کمرہ اور محراب ، شمال کي طرف واقع ہيں - مندر کے اطراف ميں چار گزرگاہيں ہيں کہ جو ماضي ميں برھمن طبقہ کي پوجا کے ليۓ مخصوص تھيں - ان راستوں کے اندر ايک چھوٹا حجرہ ہے جو نوآموز پنڈتوں کے ليۓ منتخب تھا - مندر کے دوسرے کمروں ميں مذھبي مصوري کے آثار نظر آتے ہيں جن ميں ايک اہم مصوري کا نام " کرشنا " ہے -
اگرچہ يہ عمارت کلي طور پر ہندي طرز تعمير کا ايک عمدہ نمونہ ہے مگر اس عمارت پر ايراني طرز تعمير کے آثار بھي ديکھے جا سکتے ہيں - اگر ايراني طرز تعمير کے اثرات ديکھنے ہوں تو مغربي راستے سے نظارا کريں - اس حصے ميں گول سيڑھياں ہيں جو اوپر چھت کي طرف جاتي ہيں -
ايران کا جنوبي صوبہ بوشہر
تاريخي اعتبار سے يہ بات واضح ہے کہ ايران کے جنوب ميں واقع صوبہ بوشہر اپني اسٹريٹيجک حيثيت کے پيش نظر تيسري ہزاري قبل مسيح سے ہي سمندري اڈے کے لۓ ايک مناسب مقام اور ايک آباد ساحل رہا ہے -
يہ علاقہ عيلام بادشاہت کا ايک اہم مرکز بھي تھا- ہخامنشيوں کے عہد ميں ، کہ جب ايران بيس صوبوں پر مشتمل ايک ملک تھا ، بوشہر مشرقي زاگرس اور پارس کے درميان ايک صوبے کا حصہ تھا- اردشير بابکان کے زمانے ميں موجودہ بوشہر سے آٹھ کلوميٹر کے فاصلے پر رام اردشير شہر کو تعمير کيا گيا - آج اس شہر کے کھنڈرات ري شہر کے نام سے معروف ہيں- ساسانيوں کے دور ميں ري شہر ايک آباد ساحلي شہر تھا اور اس کو بہت زيادہ اہميت حاصل تھي- اور اس کو ريو شہر کے نام سے پکارا جاتا تھا- ظہور اسلام کے بعد کي چند صديوں تک ريشہر ميں کافي رونق رہتي تھي- پرتگاليوں کي دستاويزات کے مطابق سولہويں اور سترہويں صدي عيسوي ميں ريشہر ايک بڑے تجارتي مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا- يہاں يہ بتانا بھي ضروري معلوم ہوتا ہے کہ 1310ہجري شمسي ميں قديم شہر اور علاقے ريشہر کو ايران کي قومي ميراث ميں شامل کيا گيا-
خليج فارس کے علاقے کي سوق الجيشي، اقتصادي اور تجارتي اہميت کے پيش نظر تاريخ ميں مختلف ممالک اور حکومتوں نے علم و ثروت کے تبادلے اور اثر و رسوخ ميں اضافے کے لۓ اس علاقے کو اپني توجہ کا مرکز بناۓ رکھا-
تحرير و ترتيب : سيد اسداللہ ارسلان
متعلقہ تحريريں:
بندر انزلي