عاشوراء کي عظمت کے اسباب (17)
غلام رضا گلي زوارہ
امام (ع) نے عبداللہ بن زبير کے چہرے ميں آشفتگي، پريشاني اور سراسيمگي کے آثار ديکھ لئے تھے چنانچہ سچے عزم کے ساتھ اور معاشرے کي ديني حيات کے تحفظ کي خاطر استقامت اور جدوجہد کي راہ کے سچے ادراک کي بنا پر، اس سے مخاطب ہوکر فرمايا: ميں ذلت کے بوجھ تلے دبنے والا نہيں ہوں اور بے تدبيري کي وجہ سے آساني سے اسلام اور قرآن کے ہاتھ آکر اس پھنسے والا بھي نہيں ہوں-
امام (ع) اس کے بعد مدينہ کے والي کے پاس پہنچے اور اس کو يوں سمجھايا: ميں حسين ہوں اور نہ صرف يہ کہ امويوں کے راستے کي جانب مائل ہونے والا نہيں ہوں بلکہ بلکہ شرعي اور ديني ذمہ داري اور منصب ولايت کے تقاضوں کي بنا پر مسلم نما ناپاکوں اور پليدوں کے خلاف جدوجہد اور ان کي مخالفت پر مأمور ہوں اور جب اٹھ کر جانے لگے تو والي کي مجلس ميں حاضر مروان بن حَکَم نے نِخوت آميز لہجے ميں وليد سے مخاطب ہوکر کہا: ان کو مت جانے دو، يہي موقع مناسب ہے يا ان سے بيعت لے لو يا پھر ان کا کام تمام کردو! امام (ع) مروان کا منحوس کلام سن کر غضبناک ہوئے اور اس کو ذليل و حقير سمجھ کر خطاب کيا اور فرمايا: اے بدکار عورت کي اولاد، نہ تو اور نہ ہي وليد اس طرح کے قتل کا ارتکاب نہيں کرسکتے، اب جو بات يہاں پہنچي ہے تو سن لو، سن لو تا کہ ميں تم کو ايک حقيقت سے آگاہ کروں- ہم ہيں خاندان نبوت و رسالت، اللہ کے فرشتے ہمار ے گھر ميں آتے جاتے رہے ہيں اور خدائے متعال نے ہميں وجود کي خلقت ميں مقدم رکھا اور خآتميت کي مہر ہمارے خاندان پر ثبت فرمائي، يزيد ايک فاسق، قاتل شخص اور اللہ کا نافرمان اور گنہگار ہے- مجھ جيسے يزيد جيسوں کي بيعت نہيں کيا کرتے-
تحرير : ف ح مهدوي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
عاشوراء کي عظمت کے اسباب (13)