حسين عليہ السلام انساني معاشرے کے طبيب 3
جب سنت کو مار ديا جائے اور بدعت کو زندہ کيا جائے
اس سوال کا جواب بصريوں کو امام حسين عليہ السلام کے مراسلے ميں ديکھا جاسکتا ہے-
امام (ع) نے اپنے ايلچي "سليمان" کے توسط سے ايک خط بصرہ کے اکابرين کے نام روانہ کيا جس ميں آپ (ع) نے مرقوم فرمايا:
"أنَا أدْعوكُم إلى كِتابِ اللّه ِ وَ سُنَّةِ نَبِيِّهِ صلى الله عليه و آله ؛ فَإِنَّ السُّنَّةَ قَد اُميتَت ، وَ إنَّ البِدعَةَ قَد اُحيِيَت ، وَ إنْ تَسمَعوا قَولى وَ تُطيعوا أمرى ، أهدِكُم سَبيلَ الرَّشادِ"- (2)
ميں تمہيں كتاب خدا اور سنت نبي صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کي طرف رجوع کرنےکي دعوت ديتا ہوں؛ بتحقيق کہ سنت ختم ہوگئي ہے اور بدعتيں زندہ ہوگئي ہيں- اگر تم ميري باتيں سن لو اور ميرے فرمان کي اطاعت کرو، تو ميں تمہيں صحيح اور ہدايت و رشد کا راستہ بتاğ گا-
ماري جانے والي سنتوں سے امام حسين (ع) کي مراد وہي رسول اللہ (ص) کي سنت ہے جو امام (ص) نے ابتدائي جملے ميں بيان کي ہے اور لوگوں کو اس سے رجوع کرنے کي دعوت دي ہے- جب سنت رسول اللہ (ص) کا نام ليا جاتا ہے تو اس سے مراد رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کا کلام، احکامات اور سفارشات، اعمال اور سيرت و روش ہے جو دين، قانون حيات اور انسانوں کي ابدي راہنمائي کي صورت ميں ہم تک پہنچتا ہے-
بدعت سے مراد بھي وہ احکامات اور اور رسومات اور روشيں ہيں جو دين کا جزء نہيں ہيں ليکن دين سے منسوب کي گئي ہيں اور ان کو دين کے نام سے رائج کيا جارہا ہے- سب سے بڑا نقصان جو بدعت گذار اپني بدعتوں کے ذريعے دين کے پيکر پر وارد کرتے ہيں يہ ہے کہ وہ بے بنياد، سست، انحرافي اور باطل امور ميں مصروف کرکے عوام اور معاشرے کو دين کے حياتبخش اور ہدايت بخش معارف و تعليمات سے خالي کرديتے ہيں حتي کہ معاشرہ رفتہ رفتہ اسي مصيبت سے دوچار ہوجاتا ہے جس کي طرف امام حسين (ع) نے اشارہ فرمايا ہے يعني يہ کہ بدعت گذار عناصر اسلامي معاشرے ميں دين کي نابودي کا باعث بنتے ہيں اور وہ معاشرہ بے بس ہوجاتا ہے-
تحرير : ف ح مهدوي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
حُرّ؛ نينوا کے آزاد مرد 4