• صارفین کی تعداد :
  • 1925
  • 3/17/2012
  • تاريخ :

پياس کي تاريخ 7

عاشوره

علي اکبر ميدان کارزار ميں اترے اور گھمسان کي جنگ لڑنے اور مردانگي کے جوہر جگانے کے بعد واپس لوٹے اپنے بابا کي خدمت ميں، اور عرض کيا: بابا جان! پياس نے مار ديا مجھے! اور زرہ کي سنگيني نے مجھے بے تاب کرديا ہے --- کيا ايک گھونٹ پاني مل سکے گا؟

مروي ہے کہ مولا نے اپني زبان اپنے فرزند کے منہ ميں رکھا [تو علي اکبر (ع) پيچھے ہٹ گئے اور عرض کيا بابا! آپ تو مجھ سے بھي زيادہ پياسے ہيں]- امام (ع) نے فرمايا: عنقريب اپنے جد امجد کے دست مبارک سے سيراب ہوجاۆگے! تھوڑا سا انتظار کرنا پڑے گا!

دوبارہ ميدان کي طرف لوٹے اور خوب لڑے حتي کہ ايک نامر شقي "منقذ بن مرہ عبدي" نے گھات لگا کر اپني تلوار سے شبيہ پيغمبر کي جبين کو نشانہ بنايا جس سے علي اکبر (ع) کا سر پھٹ گيا اور علي اکبر عرش زين سے فرش زمين پر آرہے- لشکر شيطان کے سپاہي ہر طرف سے جسم زخمي جسم پر ٹوٹ پڑے "فقطعوه ارباً ارباً" اور بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کرديئے-

جب علي اکبر (ع) گھوڑے کے زين سے سے گر کر اپنے خون ميں غوطہ زن ہوئے تو اپنے والد ماجد کو صدا دي: اے پِدَر  اور اے ميرے آقا! خدا کا درود و سلام ہو آپ پر؛ ہاں! ميں نے اپنے جد کے ہاتھ سے پاني نوش کيا ايسا کہ کبھي بھي پياس مجھ پر مسلط نہ ہوسکے گي؛ اور اسي اثناء ميں مولا اپنے اسمعيل کے بالين پر تشريف فرما ہوئے اور فرمايا: اے ميرے ننھے فرزند! تمہارے بعد يہ دنيا کتني کريہ المنظر ہوگي ميرے لئے!

رفتہ رفتہ اللہ کا وعدہ قريب اور قريب تر ہورہا تھا اور حسين (ع) گودال قتگاہ کي جانب رواں دواں؛ ولايت اللہي کے برسوں کا جلوہ تمام قد ہوئے، تمام عصروں اور نسلوں کے لئے چراغ نور بخش قرار پائے، خدا کي راہ پر گامزن ہونے کے لئے؛ اور کشتي نجات بن گئے پوري انسانيت اور بندگي کے بے ساحل ساحلوں پر-

سيدمحمدرضا آقاميري

بخش تاريخ و سيره معصومين تبيان

تحرير : ف ح مهدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

پياس کي تاريخ 3