عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 20
چوتھا گروپ: يہ گروپ ان لوگوں کا پر مشتمل تھا جو سمجھ رہے تھے کہ امام حسن مجتبي عليہ السلام نے خلافت معاويہ کو واگذار کرلي ہے اور زمانے کے پيچيدہ حالات کي وجہ سے آپ (ع) نے اموي بادشاہ کے مصالحت کرلي ہے؛ کيونکہ اگر چہ کوفہ اور عراق کے لوگوں کے لئے واضح تھا کہ صلح امت پر ٹھونس دي گئي ہے ليکن دور افتادہ علاقوں اور خراسان کي طرح کي دور کي ولايات کے لوگ ـ جو دور سے ہي اسلامي مملکت کے حالات پر نظر رکھے ہوئے تھے ـ صلح کے حقائق و اسرار سے بے خبر تھے اور پھر اموي حکومت کے کارندوں کي تشہيري مہم بھي اس حوالے سے خاص طور پر مۆثر تھي؛ چنانچہ امام حسين عليہ السلام نے خوني انقلاب کے ذريعے پوري اسلامي دنيا کو ثابت کرکے دکھايا کہ آپ (ع) کے بھائي امام حسن عليہ السلام کي صلح کا يہ مطلب نہيں ہے کہ اہل بيت رسول صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے مشن اور اپنے الہي فرائض سے کنارہ کش ہوگئے ہيں-
ايسے لوگ بھي مسلم معاشرے ميں موجود ہيں جو شايد ان گروپوں کے زمرے ميں نہ تھے مگر يہ ايک حقيقت تھي کہ سب خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے-
ان تمام گروپوں کے علاوہ مسلمانوں ميں دو اور گروپ بھي تھے: شيعيان اميرالمۆمنين (ع) اور شيعيان معاويہ- شيعيان اميرالمۆمنين ميں سيدالشہداء عليہ السلام کے حقيقي دوست بھي تھے- کيونکہ اگرچہ امام حسين عليہ السلام کے اصحاب و انصار کي تعداد کم تھي ليکن يہ بات قابل ذکر ہے کہ شيعيان و پيروان امام حسين عليہ السلام کي ايک بڑي تعداد اسلامي مملکت کے دور افتادہ علاقوں ميں سکونت پذير تھي جنہوں نے امام حسين عليہ السلام کي دعوت پاکر امام (ع) کي نصرت کا عزم کيا جو يا تو کوفہ اور بصرہ کے قريب روک ديئے گئے يا کربلا تک بھي گئے ليکن ...
......
تحرير : ف ح مهدوي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 16