• صارفین کی تعداد :
  • 1309
  • 3/17/2012
  • تاريخ :

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 15

محرم الحرام

... بني بکر کي ايک عورت تلوار اٹھا کر چلائي: "اے بني بکر کے مردو! کيا خاندان رسول کے گھر کي خواتين اور بچيوں کے بدن کا لباس لوٹا جارہا ہے؟ مردہ باد يہ غير الہي حکومت اے رسول اللہ يے قاتلو!"- اسي اثناء ميں اس عورت کا شوہر آيا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر خيمے کے اندر لے گيا- (14)

يہ اور اس طرح کہ متعدد واقعات کربلا کے جانگداز واقعے کے ابتدائي رد عمل کے طور پر سامنے آئے جو رفتہ رفتہ وسعت اختيار کرگئے حتي کہ مکتب اسلام ميں انقلاب کي روح پھونک دي گئي اور لوگوں کو جب بھي کوئي لائق اور اہل راہنما ميسر آيا بني اميہ کے فاسد و بدعنوان نظام ملوکيت کے خلاف اٹھ کھڑے ہو‏ئے اور اکثر انقلابات کا شعار "خون حسين کا انتقام" تھا- ان انقلابات کي تعداد زيادہ ہے اور ہم يہاں بعض نمونے پيش کرتے ہيں:

1- توابين کا انقلاب

يہ انقلاب کوفہ ميں بپا ہوا اور يہ انقلاب سيدالشہدا‏ء عليہ السلام کي شہادت کا براہ راست رد عمل اور امام عليہ السلام کي نصرت نہ کے لئے نہ جانے پر ندامت اور  احساس گناہ کا نتيجہ تھا- حالانکہ کوفيوں نے خط لکھ کر فرزند رسول (ع) کو کوفہ آنے کي دعوت دي تھي ليکن جب امام حسين يزيديوں کے نرغے ميں آئے تو ان لوگوں نے آپ (ع) کو تنہا چھوڑا يا پھر يزيد کے گورنر کے دباۆ کي بنا پر کربلا نہيں جاسکے- کوفي اپنے دامن پر سے بدنامي کا يہ دھبہ امام حسين عليہ السلام کے قاتلوں سے انت ‍ قام لے کر، دھولينا چاہتے تھے چنانچہ انھوں نے امويوں کے خلاف مسلح تحريک کا آغاز کيا اور اموي افواج کو ناقابل تلافي نقصان پہنچايا اور آخري دم تک لڑے اور اکثر توابين اس انقلاب ميں شہيد ہوگئے- يہ واقعہ سنہ 65 ہجري ميں رونما ہوا-

............

مآخذ

14- ترجمۂ اللهوف سيد بن طاووس، ص 132-

تحرير : ف ح مهدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 11