• صارفین کی تعداد :
  • 1382
  • 3/17/2012
  • تاريخ :

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 7

محرم الحرام

چنانچہ سيدالشہداء عليہ السلام کي تحريک اور شہادت کے معاني دو ہيں:

1- ان تمام چيزوں کي نفي جو اسلام کے نام سے مشہور ہوگئي تھيں-

2- ان چيزوں کا اثبات جو اسلام ميں سے حذف کي گئي تھيں اور ان سے انکار کيا گيا تھا جيسے: امر بالمعروف اور نہي عن المنکر- اور ان دو کو ملاديا جائے تو اس کا نتيجہ "محمدي اسلام کا احياء" بنتا ہے-

امام حسين عليہ السلام کي شہادت کے بعد "مکتبي گروپ" مخالف سماجي تحريک کي شکل اختيار کرگيا اور يہ تحريک بلا استثنا تمام مسلمانوں پر اثر انداز ہوئي کيونکہ مسلمان اسلام کي حقيقت اور مکتبي تفکر کے اہداف سے آگاہ ہوچکے تھے- يہ وہ تفکر تھا جو روز اول ہي سے "صالح اور غير منحرف حکومت کے قيام" کا نعرہ لگاتا رہا تھا- اس زمانے ميں پورے عالم اسلام نے اس حقيقت کا ادراک کرليا تھا کہ "قائدين کے انحراف پر امت کي خاموشي" عظيم تري غلطي ہے کيونکہ ايسي ہي خاموشي کربلا کے حادثے پر منتج ہوئي تھي اور يہي امر انقلابات اور امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کے آغاز کا باعث بن گيا-

بے شک انبياء اور اولياء الہي عليہم السلام کا کام درحقيقت امر بالمعروف اور نہي عن المنکر ہے اور يہ کہ "معروف" کيا ہے اور "منکر" کيا ہے؟؛ اور انبياء اور اولياء عليہم السلام اس سلسلے ميں صرف زباني دعوت و تبليغ پر اکتفا نہيں کيا بلکہ امر و نہي کے دشمنوں کے خلاف عملي جنگ کي سختيوں اور دشواريوں سے بھي خوفزدہ خوفزدہ نہيں ہوئے- انبياء عليہم السلام کے درميان رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے ان دو (امر بالمعروف اور نہي عن المنکر) کو زيادہ تيز رفتاري سے آگے بڑھايا اور محنت اور جہد مسلسل کے ذريعے اسلام کو فتح و کاميابي سے ہمکنار کيا-

تحرير : ف ح مهدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 3