کسائي مروزي
دور قديم کا ايک فارسي شاعر- مجدالدين ابوالحسن يا ابو اسحاق كسائى مروزى قرن چهارم كے نصف اواخر اور قرن پنجم كے اوائل سے تعلق ركهتا هے. اس نے 341 هجرى ميں اس جہان فانى ميں قدم ركها. اس نے اپنى تاريخ پيدايش كا تذكره مندرجه ذيل اشعار ميں كيا هے:
بسيصد و چهل و يك رسيد نوبت سال
چهار شنبه و سه روز باقى از شوال
بيامدم بجهان تا چه گويم و چه كنم
سرود گويم و شادى كنم بنعمت و مال
ان ابيات كى بنا پر اس بات ميں كسى شك كى گنجايش نہيں ره جاتى كه وه رودكى كا معاصر نہيں تها، بلكه اس كى وفات كے بعد پيدا ہوا. اس كے اشعار سے اس بات كى بهى وضاحت ہوتى هے كه اس نے طويل عمر پائى. وه كہتا هے : پيرى مرا بزرگرى افگنداى شگفت بى گاه و دود از دم و همواره سرف سرف زرگر فروفشاند كرف سيه بسيم من باز بر نشانم سيم سره بكرف دوسرے مقام پر كہتا هے : نورد بودم تا ورد من مورّد بود براى ورد مرا ترك من همى پرود كنون گران شدم و سرد و نانورد شدم ازان سبب كه بخيرى همى بپوشم ورد مندرجه بالا اشعار سے ثابت ہوتا هے كه اس نے سامانيوں كا آخرى دور اور غزنويوں كا ابتدائى زمانه ديكها. اسى وجه سے محمد عوفى اسے شعراے آل سبكتگين ميں شمار كرتا هے. اس كے كسائى تخلص اختيار كرنے كى وجه هدايت كے قول كے مطابق كسوت زہد زيب تن كرنا اور كلاه فقر پہننا هے. كسائى نے اپنى شاعرى كا آغاز مدح پردازى سے كيا. سب سے پہلے اس نے نوح بن منصور كى شان ميں قصائد لكهے، بعد ازاں غزنه چلا گيا اور سلطان محمود غزنوى كى مدح كى. سلاطين كے علاوه اس نے آل سامان كے وزير عتبى كى بهى مدح كى. اس وزير نے كسائى پر كئى احسانات كيے تهے اور هميشه اسے انعامات سے نوازتا رہتا تها. اس كا نام عبيد اللّه بن احمد بن حسين تها اور يه نوح بن منصور كا وزير رہا اور 372 هجرى ميں قتل كرديا گيا. افسوس كى بات يه هے كه اس شاعر رنگيں نوا كے بہت كم اشعار آج دستياب هيں. اس كے كلام پر تبصره كرتے ہوئے دٌاكرٌ دبير سياقى لكهتے هيں: "از مجدالدين كسائى جز اندك مايه سخن آبدار و شعر رنگين به دست نداريم اما آنچه داريم ممتاز است و لطيف ‘ خيال انگيز و پر نكته و درخور بزرگداشت و مغتنم و در رديف اشعار طراز اوّل زبان فارسى ."
دٌاكرٌ ذبيح اللّه صفا رقم طراز هيں:
"از اشعار موجود كسائى بخوبى ميتوان دريافت كه او از استادان مسلّم عهد خود بود و در ابداع مضامين و بيان معانى و توصيفات و ايراد تشبيهات لطيف طبيعى مهارت و قدرت بسيار داشته است. گذاشته از توصيفات و مدايح شيوايى كه ساخته ، در موعظه و حكمت هم نخستين شاعريست كه توانست بمراحل مهمى از پيشرفت نايل شود و در حقيقت اين نوع از شعر را در اواخر قرن چهارم بكمال رساند و مقدمهء ظهور شاعرانى از قبيل ناصر بن خسرو قباديانى شود." كسائى نے اپنے قطعات ميں مختلف موضوعات كو بيان كيا هے. اہم بات يلإ هے كه ان سے اس كى شخصيت كے مختلف پہلوğ پر روشنى پرٌتى هے، مثلاً يه كه وه مذهباّ شيعه تها: مدحت كن و بستايى كسى را كه پيمبر بستود و ثنا كرد و بدو داد همه كار آن كيست بدين حال و كه بودست و كه باشد جز شير خداوند جهان حيدر كرار اين دين هدى را بمثل دايره يى دان پيغمبر ما مركز و حيدر خط پرگار علم همه عالم بعلى داد پيمبر
چون ابر بهارى كه دهد سيل به گلزار
كسائى مروزى كا كمال اس كى شاعرانه مصورى هے. وه عالم فطرت كو خوب صورت اور رنگين الفاظ كے قالب ميں دٌهال ديتا هے. محسوسات كى تشبيہات ميں برٌا باريك بيں هے اور اس كى زياده تر شاعرانه تصويريں محسوسات كى هيں. ايك قطعے ميں معشوق كے حسن و جمال كى تعريف كرتے ہوئے كہتا هے:
از و بوى دزديده كافور و عنبر و زو رنگ برده
عقيق يمانى بماند گل سرخ همواره تازه
اگر قطره زد بگل بر چكانى
معشوق كى تعريف ميں اس كے كچهه قطعات اور بهى ملتے هيں . ايك قطعے ميں وه نہايت لطيف مگر سليس اشعار معشوق كى تعريف كرتے ہوئے كہتا هے:
اى ز عكس رخ تو آينهء ماه
شاه حسنى و عاشقانت سپاه
هر كجا بنگرى دمد نرگس
هر كجا بگذرى بر آيد ماه روى و موى تو نامه و خوبيست
چه بود نامه جز سپيد و سياه
بہ لب و چشم راحتى و بلا
بہ رخ و زلف توبه يى و گناه
دست ظالم ز سيم كوته به
اى به رخ سيم، زلف كن كوتاه
مذكوره بالا قطعه امين احمد رازى نے هفت اقليم ميں بهى نقل كيا هے، ان دونوں ميں حسب ذيل اختلافات پائے جاتے هيں: هفت اقليم ميں شعر نمبر 2 تيسرے نمبر پر هے. "نامهء خوبيست" كے بجاے "تامهء خونيست" لكها گيا هے. "راحتى و بلا" كے بجاے "حتى اى و بلا" هے. امين احمد كے يہاں اشعار كى تعداد چار هے. پانچواں شعر موجود نہيں هے. كسائى كى شاعرانه خوبيوں كے مد نظر دٌاكرٌ دبير سياقى اسے فردوسى اور رودكى كا هم مرتبه قرار ديتے هيں. اس كى وصف نگارى اس قدر اعلى درجے كى هے كه وه منوچہرى اولى نظر آتا هے. مندرجه ذيل قطعے كے مضامين منوچہرى كے قصيدے "وصف قطرات باران" كے مثل هيں، ملاحظه كيجيے: بر پيلگوش قطرهء باران نگاه كن چون اشك چشم عاشق گريان همى شده كويى كه پر باز سپيد است برگ او منقار باز لۆلۆ ناسفته بر چده جيسا كه لكها جا چكا هے كه كسائى نے اپنى شاعرى كا آغاز مدح پردازى سے كيا ، مگر عمر كے آخرى دور ميں اس نے اہظار پشيمانى كرتے ہوئے كہا:
جوانى رفت و پندارى نخواهد كرد بدرودم
بخواهم سوختن دانم كه هم آنجا به ببرهودم
بہ مدحت كردن مخلوق روح خويش بشخودم
نكوهش را سزاوارم كه جز مخلوق نستودم
دٌاكرٌ صفا كا اسى بنياد پر خيال هے كه مواعظ كسائى كا تعلق عمر كے اسى آخرى دور سے ہوگا . مگر راقم حروف كى راے ميں يه قياس درست نہيں هے. اس كے كسائى تخلص اختيار كرنے كى وجه سے يه گمان ہوتا هے كه وه جوانى ہى سے زهد و ورع كى طرف مايل ہوگا، مگر ساتهه ہى حكام وقت كى مدح بهى كرتا ہوگا اور اس زمانے ميں يه معيوب بهى نہيں تها. كئى جليل القدر شعرا نے ، جن كى زندگياں متصوفانه و ناصحانه اشعار لكهتے ہوئے گزرى هيں، حكام وقت كى مدح و ستايش كى هے. جب اسے يه احساس ہوا كه مخلوق كى ستايش اور زهد و ورع كا دعوا دونوں ايك ساتهه نہيں چل سكتے ، تو اس نے اپنے طرز عمل كى اصلاح كى.
اب چند ايسے قطعات نقل كيے جارهے ہيں ، جو لغت فرس اور مجمع الفصحا ميں آئے ہيں اور جنهيں دٌاكرٌ صفا نے جمع كيا هے . ايك قطعے ميں كہتا هے كه شاهراه نياز يعنى عاشقى ميں سختياں جهيلنا پرٌتى ہيں :
بشاهراه نياز اندرون سفر مسگال
كه مرد كوفته گردد بدان ره اندر سخت
وگر خلاف كنى طمع را و هم بروى
بدرّد ار بمثل آهنين بود هم لخت
ايك دوسرے قطعے ميں معشوق كى تعريف ميں كہتا هے:
دستش از پرده برون آمد چون عاج سپيد
گفتى از ميغ همى تيغ زند زهره و ماه
پشت دستش بمَثَل چون شكم قاقم نرم
چون دُم قاقُم كرده سَر انگشت سياه
پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
حضرت مولانا رومي کا عشق الہي