• صارفین کی تعداد :
  • 9094
  • 4/28/2012
  • تاريخ :

نامعلوم تک رسائي

نامعلوم تک رسائي

دنيا کے سرد ترين علاقے قطب جنوبي ، جسے براعظم انٹارکٹيکا کے نام سے جانا جاتا ہے، سينکڑوں پراني منجمد جھيليں موجود ہيں ، جن ميں ووستک جھيل بھي شامل ہے- برف کي تين کلوميٹر تہہ کے نيچے دفن اس جھيل کے پاني تک پہنچنے ميں سائنس دانوں نے حال ہي ميں کاميابي حاصل کي ہے- ماہرين کا خيال ہے کہ اس جھيل ميں دوکروڑ سال پراني زندگي اپني اصل حالت ميں موجود ہے-

ممکن ہے کہ آپ کو يہ  علم ہو کہ دوکروڑ سال پہلے کي زندگي ، اپني اصل اور جيتي جاگتي حالت ميں آج بھي محفوظ ہے اور سائنس دان اس کي حقيقت سے پردہ اٹھانے کے انتہائي قريب پہنچ چکے ہيں-

سائنس دانوں کا خيال ہے کہ دوکروڑ سال پہلے کي زندگي دنيا کے سرد ترين براعظم انٹارکٹيکا کي جھيل ووستک(Vostok) ميں اپني اصلي حالت ميں موجودہے-

انٹارکٹيکا قطب شمالي کے پاس واقع دنيا کا انتہائي جنوبي براعظم ہے ، جس کا 98 فيصد برف سے ڈھکا ہوا ہے-سرديوں ميں يہاں درجہ حرارت صفر سے 90 درجے نيچے تک گر جاتا ہے- انٹارکٹيکا ميں  سارا سال تيز سرد ہوائيں چلتي ہيں ، جس کے باعث انساني آبادي نہ ہونے کے برابر ہے-

جھيل دوستک اس علاقے ميں پائي جانے والي تقريباً چار سو جھيلوں ميں سب سے بڑي ہے- اس کي لمبائي250 کلوميٹر اور چوڑائي 50 کلوميٹر کے لگ بھگ  ہے-دلچسپ بات يہ ہے کہ کوئي بھي اس جھيل کے پاني کو ديکھ نہيں سکتا کيونکہ يہ قطبي برف کي تقريبا تين کلوميٹر موٹي تہہ کے نيچے ہے-

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جھيل دوستک کے پاني ميں دوکروڑ سال پہلے کي زندگي اپني اصل اور زندہ حالت ميں موجود  ہوسکتي ہے کيونکہ يہ پاني دوکروڑ  سال سے بيروني اثرات سے مکمل طورپر محفوظ ہے-

سائنس دانوں کو اس پاني تک پہنچنے کے ليے، جسے دوکروڑ سال سے کبھي کسي نے نہيں چھوا، برف کي تين کلوميٹر موٹي چٹاني تہہ ميں سوراخ کرنے کے ليے 20 سال سے زيادہ کا عرصہ لگا ہے-

سائنس دانوں کا خيال ہے کہ چونکہ جھيل کے پاني کو  اس کے گرد واقع برف کي موٹي تہہ نےاس طرح سيل کررکھاہے کہ باہر کي دنيا سے نہ توکچھ وہاں پہنچ سکتا ہے اور نہ ہي وہاں سے کوئي چيز باہر نکل سکتي ہے، اس ليے دو کروڑ سال پہلے يہاں زندگي جس حالت ميں تھي، اسي حالت ميں محفوظ ہے-

سائنس دانوں کو اس جھيل کے پاني تک رسائي کے بعدکرہ ارض پر زندگي کي ابتدائي حالت کے بارے ميں معلومات حاصل ہونے کا اس ليے بھي يقين ہے کيونکہ ايک نظريہ يہ ہے کہ اس سيارے پر زندگي کي ابتدا پاني سے ہوئي تھي اور ابتدائي زندگي ايک خليے کے جاندار کي شکل ميں تھي-

نامعلوم تک رسائي

ماہرين کا خيال ہے کہ جھيل دوستک ميں زندگي اپني ابتدائي شکل ميں محفوظ ہوسکتي ہے اور ممکن ہے کہ يہ زندگي جراثيمي شکل ميں ہو-

سائنس دانوں کا يہ خيال بھي ہے کہ جھيل کے پاني تک رسائي ميں کاميابي  حاصل ہونے کے بعد اب يہ جاننے ميں بھي مدد مل  سکتي ہے کہ کرہ ارض پر پائي جانے والي زندگي مقامي ہے يا يہ کسي بيروني سيارے سے آئي تھي- کيونکہ ايک نظريے کے مطابق زمين پر زندگي کا آغاز کسي ايسے شہاب ثاقب يا سيارجے کے ٹکرانے بعد ہوا جس پر زندگي موجود تھي-

سائنس دانوں نے اس کاميابي کو ’ معلوم اور نامعلوم کے درميان ملاقات‘ کا نام ديا ہے-

ناسا کے ايک سائنس دان ڈاکٹر وليد عبدالعطي کا کہناہے کہ سادہ ترين الفاظ ميں ہم يہ کہہ سکتے ہيں اس کاميابي سے ہميں  زندگي کے بارے ميں جاننے ميں مدد ملے گي-

برفاني دور سے پہلے  زمين پر  آب وہوا گرم مرطوب تھي - شديد بارشيں ہوتي تھيں اور گھنے جنگلات کي بہتات  تھي-  زمين پر ڈينوساروں کاراج تھا- پھر لاکھوں سال تک جاري رہنے والے سرد برفاني دور نے ڈينوساروں سميت زندگي کي کئي اور اقسام کو مٹا ديا-  ماہرين کا کہناہے کہ برف کي موٹي تہوں سے سيل ہوجانے کے بعد، جھيل دوستک ميں موجود زندگي  کارابطہ بيروني دنيا سے کٹ گيا - اور اگر اس  پاني ميں زندگي اب بھي موجود ہے تو وہ زندگي کي وہي شکل ہے جو برفاني دور کے آغاز سے قبل دو کروڑ سال پہلے پائي جاتي تھي-

دوستک جھيل کے پاني کا درجہ حرارت منفي تين درجے سينٹي گريڈ ہے- اگرچہ صفر درجہ حرارت پر پاني جم جاتا ہے ليکن برف کے شديد دباۆ کے باعث جھيل کا پاني مائع حالت ميں ہے-  سائنس دانوں کا کہناہے کہ اگر اس پاني ميں زندگي موجود ہے تو اس سے مريخ کے برفاني قطبي علاقوں اور مشتري اور زحل کے چاندوں پر موجود برف کي تہوں ميں زندگي کے امکان  پر تحقيق آگے بڑھانے ميں مدد مل سکتي ہے-

روس کے سائنس دان ليو سويت يوگن نے، جنہوں نے جھيل کے پاني تک ڈرل کرنے کے مشن کي قيادت کي تھي، کہناہے کہ انہيں توقع ہے کہ ماہرين کو پاني کے نمونوں ميں  قبل  ازتاريخ کا بيکٹريا مل جائے گاجس سے زندگي کي ابتدا کے بارے ميں جاننے ميں مدد مل سکے گي-

جھيل کے پاني تک پہنچنے کے بعد ماہرين  نے  اس کے دہانے کو سختي سے بند کرديا گيا ہے تاکہ کروڑوں  سال پرانے بيکٹريا کو باہر نکل کر پھيلنے کا موقع نہ ملے - کيونکہ ماہرين کو خدشہ ہے کہ وہ بڑے پيمانے پر تباہي بھي لا سکتا ہے-

پاني کے نمونے  حاصل کرنے کے بعد انہيں في الحال وہيں محفوظ کرديا گيا ہے - اس سال دسمبر ميں  سردياں شروع پر ان نمونوں کو مزيد تجربات کے ليے ليبارٹري ميں منتقل کردياجائے گا-


متعلقہ تحريريں:

جھوٹ پکڑنے کے طريقے