تحريف قرآن اور صحابہ کے متعلق شيعہ علماء کے نظريات ( حصّہ دوّم )
کيا شيعہ علماء قرآن ميں تحريف کے قائل ہيں ؟
ہرگز نہيں ! شيعہ حضرات قرآن مجيد ميں تحريف کے قائل نہيں ہيں - ان کا عقيدہ يہ ہے کہ موجودہ قرآن وہي ہے جسے خدا نے اپنے پيغمبر پر نازل کيا ہے - فضل بن شاذان سے موجودہ زمانہ تک تمام شيعہ علماء ميں کوئي بھي تحريف قرآن کا قائل نہيں ہوا ہے اگرچہ شيعہ اور سني دونوں کے منابع ميں تحريف قرآن کے بارے ميں کچھ شاذ و ضعيف روايات موجود ہيں ليکن کسي نے بھي ان پر عمل نہيں کيا ہے -
قرآن کے تحريف نہ ہونے کے سلسلہ ميں نمونہ کے طور پرصرف شيخ صدوقغ؛ کي عبارت نقل کي جا رہي ہے آپ نے جس رسالہ ميں شيعوں کے عقائد کو بيان فرمايا ہے اس ميں تحريف قرآن کے بارے ميں لکھا ہے : ” اعتقادنا ان القرآن الذي انزلہ اللہ تعالي علي نبيہ محمد صلي اللہ عليہ وآلہ و سلم ہو ما بين الدفتين و ہو ما بايد الناس ليس باکثر من ذلک و من نسب الينا انا نقول انہ اکثر من ذلک فہو کاذب “ ہم شيعوں کا عقيدہ ، قرآن کے بارے ميں يہ ہے : جس قرآن کو خداوند عالم نے اپنے پيغمبر حضرت محمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم پر نازل فرمايا ہے وہ يہي ہے جو تمام لوگوں کے اختيار ميں ہے وہ اس سے زيادہ نہيں تھا اور نہيں ہے اور جو شخص شيعوں کي طرف يہ نسبت دے کہ ان کا عقيدہ يہ ہے کہ قرآن اس سے زيادہ تھا تو وہ جھوٹا ہے“ ( شيخ صدوق ، اعتقادات الاماميہ ، ضميمہ شرح باب حادي عشر ، بحوالہ رسائل و مقالات آية اللہ سبحاني ، ج1 ، ص 192 )
صحابہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے متعلق شيعہ علماء کا نظريہ
حضرت پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے صحابہ کے بارے ميں شيعوں کا نظريہ بالکل معتدل اور افراط و تفريط سے خالي ہے يعني شيعہ حضرات اصحاب پيغمبر کا احترام کرتے ہيں ليکن بعض قرآني آيات نيز روايات کے مطابق کچھ ايسے اصحاب تھے جو حضرت پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ سلم کي راہ سے منحرف ہوگئے تھے شيعہ ايسے صحابہ کے بارے ميں حساس ہيں -
بنابراين جو کچھ بيان کيا گيا ان سے سارے عوامل و اسباب نيز تجاويز خصوصا حقائق کو بيان کرنا اور اسلامي مذاہب کے اصلي نظريات کو بيان کرنا اور ہر مذہب کے صاحب نظر علماء کے عقائد سے باخبر ہونا اور اسلامي مذاہب کے تمام پيروکاروں کے عقيدوں کو ان کتابوں سے بيان کرنا جنھيں وہ قبول کرتے ہيں يہ ساري باتيں وہ ہيں جو مسلمانوں کے درميان اتحاد و ہمبستگي قائم کرنے ميں بہت زيادہ کار ساز اور موثر ہيں ديني علماء ان حقائق کو بيان کرکے مسلمانوں کو ايک دوسرے کو کافر بنانے اور ان پر تہمت لگانے سے بچا سکتے ہيں اور سب کو لا کر ايک صف ميں کھڑا کر سکتے ہيں -
جہان اسلام کے موجودہ علماء اپنے گزشتہ علماء کي اقتدا کرتے ہوئے ايسے علم کلام ، فقہ و اصول لکھيں جو ايک دوسرے سے قريب اور تمام مذاہب کے درميان مقبول ہوں - ان کي تعليم ديں اور ايک دوسرے سے کسب فيض کريں - بحث و مناظرہ اور گفتگو کو پر خلوص اور دوستانہ فضا ميں انجام ديں جيسا کہ شيخ مفيد اور قاضي ابو بکر باقلاني ، دوستانہ فضا ميں مناظرہ کے تمام آداب و شرائط کي رعايت کرتے ہوئے آپس ميں مناظرے کرتے تھے اسي لئے اہل سنت کے درميان شيخ مفيدغ؛ کا بڑا احترام ہے جس وقت انھوں نے رحلت کي تو تشييع جنازہ ميں بہت زيادہ مجمع تھا اور بڑي شان و شوکت سے جنازہ اٹھاجب کہ بغداد کے اکثر لوگ اہل سنت تھے -
اسي طرح پانچويں صدي ميں شيخ طوسي غ؛نے کتاب ” الخلاف “ لکھي جس ميں تمام اسلامي مذاہب کے نظريات کو بيان فرمايا اور اہل سنت کے فاضل عالم قوشجي نے شيعہ عالم دين خواجہ نصير الدين طوسي کي کتاب ” تجريد الاعتقاد “ کي شرح لکھي اور شيعہ عالم دين جناب فيض کاشاني ( متوفي 1072ھ ق) نے اہل سنت کے مشہور عالم غزالي کي کتاب ” احياء علوم الدين “ کي تہذيب و تحقيق کي -
اسي طرح ابھي دور کي بات نہيں ہے سيد جمال الدين افغاني ، شيخ محمد عبدہ ، علامہ اقبال لاہوري ، شيخ حسن بناء ( اخوان المسلمين کے ليڈر ) شيخ محمود شلتوت ، آيت اللہ بروجردي ، شرف الدين عاملي ، شيخ سليم بشري اور امام خميني يہ تمام لوگ اسلامي اتحاد کے علمبردار تھے ان لوگوں نے اسلامي اتحاد و اخوت کو برقرار کرنے کے سلسلہ ميں کوئي کسر باقي نہيں رکھي بنابر ايں بہت مناسب و شايستہ ہے کہ عالم اسلام کے موجودہ علماء ان لوگوں کي تاسي کرتے ہوئے مسلمانوں کے درميان اتحاد بر قرار کريں اس راہ ميں رات دن کوشش کريں اور اختلافات کے منحوس نغموں کي آواز کو نابود کر ديں -
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان