سورۂ بقره کي آيت نمبر 14 کي تفسير
خداوند کلام کي حمد و ستائش اور حامل وحي و رسالت حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ و آلہ و سلّم اور ان کے اہلبيت مکرم پر درود وسلام کے ساتھ تفسير کا نيا سلسلہ " کلام نور " ليکر حاضر ہيں جيسا کہ آپ کو معلوم ہے گفتگو منافقين کے سلسلے ميں چل رہي تھي کہ مسلمانوں کے درميان اسلام و ايمان کا لبادہ پہن کر دشمنان اسلام کے لئے کام کرنے والے اپني خاص پہچان اور خاص راہ و روش رکھتے تھے خداؤ آخرت پر ايمان کا جھوٹا ادعا، مومنين کے ساتھ دھوکہ ، دلوں ميں بيماري، تخريب کاري اور اصلاح پسندي کا دعوي کرتے ہوئے اہل ايمان کو بيوقوف خيال کرنا منافقين کي نماياں خصوصيات ميں شامل ہے چنانچہ سورۂ بقرہ کي چودھويں آيت ميں ان کي دورنگي کا ايک اور روپ پيش کرتے ہوئے خدا فرماتا ہے : " وَ اِذَا لَقُوالّذِينَ امَنُوا قَالُوا امَنّا ، وَ اِذَا خَلَوا اِلي شَيطينِہم قَالُوا اِنّا مَعَکُم اِنّمَا نَحنُ مُستہزؤنَ "اور جب يہ لوگ اہل ايمان سے ملاقات کرتے ہيں کہتےہيں : ہم بھي ( تمہاري طرح ) صاحب ايمان ہيں اور جس وقت اپنے شيطان صفت ہم خيالوں ميں پہنچتے ہيں کہتے ہيں : ہم آپ کے ساتھيوں ميں ہيں ہم تو بس ان ( مسلمانوں ) کے ساتھ مذاق کرتے ہيں-عزيزان محترم ! اس آيت ميں گويا اللہ نے کفر کي طرف منافقين کے دروني ميلان کا بھانڈا پھوڑا ہے اور شيطان چونکہ حق و حقيقت سے گريز اختيار کرنے والے ايک مکار وجود کي علامت ہے ان کے لئے لفظ " شيطان " استعمال ہوا ہے جو مؤمنين کے مقابل مسلمانوں ميں گھلا ملا ايک شيطاني گروہ ہے چنانچہ اہل نفاق مومنين سے ملتے تو خود کو ان ہي کي طرح کا بلکہ ان سے بھي بڑا مومن قرار ديتے تھے ليکن جب اپنے ہم خيال شيطانوں کے ساتھ تنہا ہوتے تھے اپني صفائي پيش کرتے کہ ہم تو آپ سب کے ساتھ ہيں مومنين کے ساتھ تو ہم مذاق کيا کرتے ہيں کہ وہ بيوقوف لوگ ہم کو بھي اپني طرح مومن خيال کريں اور ہم کو کوئي نقصان نہ پہنچائيں -جي ہاں ! صدر اسلام ميں منافقين کے بھي دوگروہ تھے ايک تو شروع سے ہي کافر تھے اور محض وقتي مفادات کے تحت خوف يا لالچ ميں پڑکر خود کو مومن ظاہر کرتے تھے - يَقُولُونَ بِاَفوَاھِہِم مّا لَيسَ فِي قُلُوبِہِم منھ سے وہ باتيں کہتے ہيں جو ان کے دلوں ميں نہيں ہيں مگر منافقين ميں کچھ وہ بھي تھے جو شروع ميں صدق دل سے ايمان لائے تھے اور مسلمانوں کے ساتھ زحمتيں بھي اٹھائي تھيں مگر دنيوي اغراض و مقاصد کي تکميل نہ ہونے کے باعث، دل سے کافر ہوگئے صرف ظاہري طور پر اپني مصلحتوں کے تحت خود کو مسلمان ظاہر کرتے ليکن اندر ہي اندر اسلام اور مسلمانوں کي جڑيں کاٹنے کي فکر ميں رہتے تھے - جيسا کہ سورۂ منافقون کي دوسري اور تيسري آيت ميں آيا ہے: " اِتّخَذُوا اَيمَانَہُم جُنّۃً -----" انہوں نے اپني قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے -" ذلِکَ بِاَنّہُم امَنُوا ثُمّ کَفَروا فَطُبِعَ عَلي قُلُوبِہِم فَہُم لَايَفقَہُون " يہ اس لئے ہے کہ يہ ايمان لاکر پھر کافر ہوگئے پس ان کے دلوں پر مہر لگادي گئي لہذا يہ ( دين کو ) نہيں سمجھتے- چنانچہ خداوند عالم نے جو تمام انسانوں کے ظاہر و باطن سے آگاہ ہے اور جو کچھ زبان پر ہے دل اس سے مطابقت رکھتا ہے يا نہيں ؟ ہر چيز سے باخبر ہے - منافقين کي حقيقت سے پردہ اٹھايا ہے تا کہ وہ مومنين کو فريب نہ دے سکيں اگرچہ منافقين خود بھي اپنے ہم خيالوں ميں اپني منافقت کا اعتراف کرتے ہيں اور اپنے نفاق کو مومنين کا مذاق اڑانے سے تعبير کرتے ہيں اسي لئے خداوند متعال نے اس کے بعد سورۂ بقرہ کي پندرہويں آيت ميں فرمايا ہے : " اَللہُ يَستَہزِيءُ بِہِم وَ يَمُدّہُم في طُغيانِہِم يَعمَھُونَ " ( يعني ) اللہ بھي ان لوگوں کا مذاق بناتا ہے اور ان کو سرکشي اور طغيان کے لئے مہلت ديديتا ہے تا کہ وہ اسي ميں سرگرداں رہيں - دوسروں کا تمسخر اور مذاق اڑانا ، ہرحال ميں ناجائز اور نامناسب ہے سورۂ حجرات کي گيارہويں آيت ميں خدا فرماتا ہے : " لَايَسخَر قَومٌ مّن قَومٍ ----" ايمان والو! خبردار ايک قوم ( کے مرد) دوسري قوم ( کے مردوں ) کا مذاق نہ اڑائيں ممکن ہے وہ اس سے بہتر ہوں اور عورتوں کي ايک جماعت دوسري جماعت کا تمسخر نہ کرے کہ شايد وہ عورتيں ان سے بہتر ہوں " ليکن تمسخر اور مذاق اڑانے ميں پائي جانے والي خرابي موارد کے لحاظ سے مختلف ہے ايک دفعہ منافقين مومنين کا مذاق اڑاتے ہيں اور ايک دفعہ وہ نبي و امام ، اوليائے الہي اور آيات الہي کامذاق اڑاتے ہيں تو ٹھيک ہے مومنين کا مذاق اڑانا بھي فسق و گناہ ہے مگر خدا و رسول اور ائمہ ؤ قرآن کا مذاق اڑانا کفر ہے کہ جس کي طرف سورۂ توبہ کي آيات 65 اور 66 ميں اشارہ کيا گيا ہے- اگرچہ ايک مومن کا اس کے ايمان کي وجہ سے مذاق اڑانا، کفر کي منزل ميں ہي پہنچا ديتا ہے کيونکہ بالواسطہ طور پر مومن کے ايمان کا مذاق اڑانا وحي و رسالت کا مذاق اڑانے کے ہي مترادف ہے اسي لئے مومنين کا مذاق اڑانے والے منافقين کے جواب ميں خدا نے خود انکا مذاق بنانے کا اعلان کيا ہے کہ وہ ان کو طغيان و سرکشي کے لئے آزاد چھوڑديتا ہے تا کہ وہ اسي ميں سرگرداں اور پريشاں رہيں اور انہيں راہ حق نصيب نہ ہوسکے -اس سے بڑي سزا اور کيا ہوسکتي ہے کہ اپنے بندوں کو ان کا پروردگار حيران و سرگرداں آزاد چھوڑدے منافقين جس ميں اپني کوردلي اور بے بصيرتي کے سبب گرفتار ہوجاتے ہيں يہ بھي اللہ کي ايک سنت رہي ہے کہ وہ ظالموں اور مجرموں کو مہلت ديتاہے مگر يہ مہلت اسي وقت رحمت ہوسکتي ہے جب انسان اپنے ظلم و جرم کي طرف متوجہ ہوکر توبہ کرلے ورنہ يہي مہلت کفار و مشرکين اور منافقين و ظالمين کو گناہ و جرائم کے دلدل ميں اور زيادہ دھنساتي چلي جاتي ہے اور بالآخر انسان عذاب ميں غرق ہوکر تباہ و برباد ہوجاتا ہے -
فرزند رسول امام رضا عليہ السلام نے فرمايا ہے ( نور الثقلين ج اول ص 35 ) : " خداوند عالم کسي کے ساتھ مکر وحيلے اور تمسخر و استہزا سے کام نہيں ليتا ليکن دشمنوں کے مکر وحيلے اور استہزاء کا بدلہ ان ہي کے انداز ميں انہيں ديتا ہے - " البتہ دونوں ميں فرق يہ ہے کہ منافقين کا مذاق اڑانا حقيقي دنيا ميں مومنين پر کوئي اثر مرتب نہيں کرتا محض ايک اعتباري چيز ہے بلکہ خدا نے مومنين کو مذاق اڑانے والوں کے شر سے بچانا خود اپنے ذمے لے ليا ہے " انّا کفينک المستہزئين " ( يعني آپ کے ساتھ جو لوگ مسخرہ پن کرتے ہيں ان کي سزا کے لئے ہم کافي ہيں ) ليکن جب خدا منافقين کا مذاق بناتا ہے تو اس کا اثر ان کي حقيقي زندگي پر مرتب ہوتا ہے اور ان کے قلب و دماغ سبک ہوجاتے ہيں جيسا کہ خدا نے ظالمين کے سلسلے ميں فرمايا ہے : "وَ اَفئدَتُہُم ہَوَاءٌ " ( ابراہيم / 43) اور ان کے دل خالي اور اڑے ہوئے ہوں گے- معلوم ہوا : منافق اپني کوئي مستقل پہچان اور شخصيت نہيں رکھتا جس ماحول ميں پہنچتا ہے ان ہي کے رنگ ميں خود کو رنگنے اور دھوکہ دينے کي کوشش کرتا ہے -
· مومنين کو ياد رکھنا چاہئے کہ ايمان کا ادعا کرنے والے ہر شخص کو مومن سمجھ لينا مومن کي فراست کے خلاف ہے ديکھنا چاہئے کہ وہ کيسے لوگوں کے ساتھ رفت آمد رکھتا ہے کيا کہتا ہے اور کيا کرتا ہے دين اور ديني قيادت کے سلسلے ميں اس کا کيا رويہ ہے-
· شيطان ، صرف جن کے درميان نہيں ہوتے انساني شکل ميں بھي شيطان صفت پائے جاتے ہيں -
· منافقين معاشرے ميں دشمنوں کے بازو کا کام کرتے ہيں ، نظام کے خلاف سازشيں رچتے ہيں اور مومنين کو سادہ انديش اور بيوقوف خيال کرتے ہيں اور اپنوں کے درميان ان کا مذاق اڑاتے ہيں -
· خداوند عالم مقام سزا ميں منافقين کے ساتھ " جيسے کوتيسا " کے فلسفے پر عملي کرتا ہے ، گناہ و جرائم کے سلسلے ميں ملنے والي مہلت پر اکڑنے کے بجائے توبہ ؤ استغفار سے کام لينا چاہئے -
· ورنہ طغياني اور سرکشي سے کام لينے والوں کو اللہ ان کے حال پر چھوڑ ديتا ہے اور وہ تباہي و بربادي کے دلدل ميں اور زيادہ دھنستے چلے جاتے ہيں -
بشکريہ آئي آر آئي بي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان