سورۂ بقره کي آيت نمبر 9 کي تفسير
اہل ايمان و اہل کفر کے علاوہ انساني معاشرے ميں بہت سے لوگ اپنے ظاہر و باطن کے لحاظ سے دوہري زندگي گزارتے ہيں ظاہر کچھ اور ہے باطن کچھ اور اس طرح کے لوگوں کو قرآن نے " منافق" کے نام سے ياد کيا ہے چنانچہ آج ہم کلام نور ميں سورۂ بقرہ کي سلسلہ وار تفسير کے تحت اس اہم موضوع پر گفتگو کريں گے - خداوند عظيم سورۂ بقرہ کي آٹھويں آيت ميں فرماتا ہے: " وَ مِنَ النّاسِ مَن يَقُولُ ءامَنّا باللہِ وَ بِاليَومِ الاخِرِ وَ مَا ھُم بِمُؤمِنينَ" اور لوگوں ميں ايک گروہ ہے جو کہتا ہے ہم اللہ پر اور روز آخرت ( يعني قيامت) پر ايمان لائے ہيں حالانکہ ( يہ لوگ ) ايمان نہيں رکھتے - قرآن مجيد نے جو ہدايت و رہنمائي کي کتاب ہے سورۂ بقرہ کي ابتدائي آيات ميں ہي مومن و ديندار پرہيزگاروں ، خدا و رسول کي دشمني کے شکار کافروں اور ظاہر و باطن ميں دو رنگي رکھنے والے منافقوں کي خصوصيات بيان کردي ہيں تا کہ ہم اپنے آپ کو بھي پہچان سکيں اور دوسروں کو بھي سمجھ سکيں کہ کون کس گروہ ميں شامل ہے اور پھر اسي کے مطابق معاشرے ميں لوگوں کے ساتھ اپنے رويّے اور تعلقات کے دائرے معين کريں اور دھوکے يا افراط و تفريط کا شکار نہ ہوں چنانچہ ابتدائي چار آيتوں ميں پرہيزگار مومنين کا ذکر تھا پھر دو آيتوں ميں انتہاپسند کفار کي خصوصيات بيان کي گئيں اور اب ساتويں آيت سے منافقين کا ذکر شروع ہوا ہے جو تيرہ آيتوں ميں پھيلا ہوا ہے کيونکہ ان کي شناخت اور پہچان مومنين اور کافرين سے زيادہ سخت اور ضروري ہے، ان کے يہاں نہ مومنين کي نورانيت پائي جاتي اور نہ ہي کافروں کي جرات و جسارت ہوتي کہ آدمي آساني سے پہچان لے يہ لوگ نہ دل ميں ايمان رکھتے نہ زبان سے کفر کا اعلان کرتے يہ نفاق نہايت ہي خطرناک لباس ميں مومنين اور کفار دونوں کے درميان اس طرح گھسے ہوتے ہيں کہ مومنوں ميں سب سے بڑے مومن اور کافروں ميں سب سے بڑے کافر بنے رہتے ہيں اور اپني حقيقت چھپا کر دونوں کو بيوقوف بنانے کي کوشش کرتے ہيں - يہ منافقين چونکہ دل سے کافر ہوتے ہيں اور اپنے دروني کفر کو چھپاتے ہيں اگرچہ بعض احکام ميں کافروں اور مشرکوں کے شريک ہوتے ہيں ليکن کافروں سے زيادہ خطرناک اور تباہ کار ہيں اور قرآن نے بھي ان کو کافروں سے بدتر قرار ديا ہے متعدد آيات ميں قرآن نے منافقين کے چہروں پر پڑے اس پردے کو اٹھايا اور ان کے کفر کو نماياں کيا ہے اور بتايا ہے کہ وہ مبداء، معاد اور رسالت و امامت کے سلسلے ميں نفاق سے کام ليکر نماز اور انفاق و خيرات کي مانند امور دين ميں رياکاري سے استفادہ کرتے ہيں - يہ منافقين ،اپنا کفر چھپا کر ايمان کااظہار اس لئے کرتے ہيں کہ مومنين ميں رہ کر کافروں کے لئے جاسوسي کے ساتھ اسلامي معاشرے کے سماجي اور معاشي سہوليات سے زيادہ بہرہ مند ہوسکيں ليکن منافقين کا يہ دروني کفر امتحان کے وقت کھل جاتا ہے چنانچہ سورۂ آل عمران کي آيت 167 ميں اسي طرف اشارہ ہے : " ہُم لِلکُفرِ يَومَئِذٍ اَقرَبُ مِنھُم لِلاِيمَان " يہ لوگ ايمان کي نسبت کفر سے زيادہ قريب ہيں کيونکہ زبان سے وہ کہتے ہيں جو ان کے دل ميں نہيں ہوتا - زمانۂ پيغمبر (ص) ميں اس طرح کے منافقين جنگ کے مواقع پراکثر اپنا اصل چہرہ دکھانے پر مجبور ہوئے ہيں- خداوند عالم اپنے رسول کو ان منافقين کي فريب کاريوں سے مطلع کرديتا تھا اور نبي اکرم (ص) حسب ضرورت مسلمانوں کو خبردار کر ديتے تھے اس لئے زيادہ تر منافقين کو ہي اپنے نفاق کا نقصان ہوتا تھا آخرت کي تباہي کے علاوہ يہ لوگ دنيا ميں بھي ذليل و رسوا ہوجاتے ہيں - اور اب سورۂ بقرہ کي نويں آيت خدا فرماتا ہے : يُخدِعُونَ اللہَ و الّذِينَ ءَ امَنُوا وَ مَا يَخدَعُونَ اِلّا اَنفُسَھُم وَ مَا يَشعُرُونَ " يہ ( منافق ) افراد اللہ کو اور مومنين کو دھوکہ ؤ فريب دے رہے ہيں حالانکہ يہ اپنے آپ کو دھوکہ دينے کے سوا ( کسي اور کو ) دھوکہ نہيں دے رہے ہيں اور ( اس بات کو ) سمجھتے بھي نہيں ہيں - منافقين بہ خيال خود بہت ہي ذہين اور چالاک ہيں اور خيال کرتے ہيں کہ وہ حيلہ ؤ مکر سے کام ليکر اپنے خدا کو بھي دھوکہ دينے ميں کامياب ہوجائيں گے بظاہر اسلام قبول کرکے مسلمانوں کو حاصل تمام سہوليات سے فائدہ بھي اٹھائيں گے اور خدا و رسول (ص) کو نقصان بھي پہنچائيں گے ليکن خدا نے خدا اور اس کے مومن و ديندار بندوں کو دھوکے ميں رکھنے کا گمان کرنے والوں کو " خودفريب " قرار ديا ہے اور اعلان کيا ہے کہ منافقين خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہيں يہ سمجھتے ہيں کہ ہمارے نبي (ص) کو اور مومنين کو دھوکا ديکر اپنا کفر اسلام کي چادر ميں چھپاليں گے اور موقع ديکھ کر اسلام کو نقصان پہنچانے ميں کامياب ہوجائيں گے تو يہ ان کي بھول ہے خدا کو ان کے باطن کي خبر ہے اور وہ ان کے نفاق اور دورنگي سے آگاہ ہے وہ انہيں وقت ديکھ کر معاشرے ميں ذليل و رسوا کردے گا اور ان کا اصل چہرہ لوگوں کے سامنے آجائے گا اور اہل حق ان کے حيلہ ؤ مکر سے محفوظ ہوجائيں گے - نفاق کي آگ خود منافق کو جلاتي ہے اور وہ اس بات کو سمجھ بھي نہيں پاتے اگرچہ خود کو سب سے بڑا عقلمند اور چالاک سمجھتے ہيں ،اگر کوئي مريض ڈاکٹر کي ہدايات پر عمل نہ کرے اور اپنے مرض کے لئے تشخيص شدہ دوائيں استعمال نہ کرے اور ڈاکٹر سے جھوٹ بولے کہ ہم نے دوا کھائي ہے تو يہ بظاہر وہ ڈاکٹر کو دھوکہ ديتا ہے ليکن حقيقت ميں خود کو دھوکہ ديتا ہے ، منافقين بھي اسي قسم کے مريض ہيں جو سمجھتے ہيں کہ خدا ؤ رسول(ص) کو دھوکہ دے رہے ہيں مگر خود کو دھوکہ ديتے ہيں اور خود کو الہي عذاب ميں مبتلا کرتے ہيں-اور اب سورۂ بقرہ کي دسويں آيت ارشاد ہوتا ہے :" في قُلُوبِہِم مّرَضٌ فَزَادَھُمُ اللہُ مَرَضًا وَ لَھُم عَذَابٌ اَلِيمٌ بِمَا کَانُوا يَکذِبُون " ان ( منافقين ) کے دلوں ميں بيماري ہے پس اللہ نے ان کے مرض کو ( نفاق کے سبب ) اور بڑھا ديا ہے اور انکے لئے ان کے جھوٹ کے سبب دردناک عذاب ہے -عزيزان محترم ! قرآن کي نظر ميں جس طرح بدپرہيزي اور جسماني توازن بگڑ جانے کے سبب، انسان کا جسم مريض ہوجاتا ہے انسان کي روح بھي ايمان و پرہيزگاري سے دوري کے سبب مريض ہوجاتي ہے جس کا علاج نہ ہونے کي صورت ميں مرض بڑھتا چلا جاتا ہے يہاں تک کہ ايک انسان کي انسانيت اور شرافت بالکل مردہ ہوجاتي ہے چنانچہ نفاق اور کفر ان ہي بيماريوں ميں سے ہے جو روح کو مريض کرديتي ہے نفاق عقل و دل دونوں کے لئے خطرناک ہے صحيح و سالم انسان کے جسم و روح ميں کامل ہم آہنگي پائي جاتي ہے زبان پر وہي آتا ہے جو دل ميں ہوتا ہے اور انسان وہي کام کرتا ہے جو زبان سے کہتا ہے اور جب ايسا نہ ہو تو سمجھنا چاہئے کہ روح مريض ہوگئي ہے علاج کي ضرورت ہے ورنہ مرض بڑھنے لگے گا اور آدمي انسانيت کي راہ سے دن بدن منحرف ہوتا چلا جائے گا-نفاق کي بيماري کا اصل سرچشمہ جھوٹ ہے جو روح کا کينسر ہے جس کے خطرات جراثيم کي طرح پھيلتے چلے جاتے ہيں اور دوسري بيماريوں کے پيدا ہوجانے کاانديشہ بڑھ جاتا ہے فريب ، تکبر ، حسد ، طمع ، چغل خوري، کنجوسي اور حرام خوري يہ سب بيمارياں پيدا ہوتي چلي جاتي ہيں - نفاق کا آغاز جھوٹ سے ہوتا ہے ليکن اس کي انتہا انسانيت کو نيست و نابود کردينے پر ہوتي ہے البتہ جھوٹ کا تعلق صرف زبان سے نہيں ہے اگر عمل و رفتار عقيدہ کے مطابق نہ ہو تو يہ بھي " عملي جھوٹ " ہے؛ شروع سے ہي آدمي کا دل بيمار ہو يہ سنت الہي کے خلاف ہے ليکن جب آدمي اپنا دل بيمار کرليتا ہے تو خدا اس کي بيماري ميں اضافہ کرديتا ہے ، ورنہ آغاز ميں ايمان و تقوي بيماري سے بچاتے ہيں اور علاج بھي کرتے رہتے ہيں ليکن جو لوگ اپنے اختيار و انتخاب کا غلط فائدہ اٹھا کر خود کو مريض کرليں اور ايمان و تقوے سے بيماري کا علاج نہ کريں بيماري بڑھ جاتي ہے چنانچہ منافقين کےلئے اللہ نے دردناک عذاب مہيا کررکھا ہے اور يہ ان کے اسي جھوٹ کے سبب ہے جو تمام برائيوں کا سرچشمہ ہے خاص طور پر اعتقادي جھوٹ جو منافقين کے يہاں پايا جاتا ہے " عذاب اليم " کا باعث بنتا ہے -پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلّم کا ارشاد گرامي ہے کہ تين صفات جس شخص کے يہاں بھي پائے جائيں سمجھو کہ منافق ہے چاہے وہ روزہ رکھتا اور نماز پڑھتا ہو اور خود کو مسلمان سمجھتا ہو ايک تو وہ شخص جو امانت ميں خيانت کرے دوسرے وہ شخص جو گفتگو ميں جھوٹ بولنے کا عادي ہو اور تيسرے وہ شخص جو وعدہ خلافي کرتا ہو يا وعدہ کرکے مکر جائے - معلوم ہوا : ايمان کا تعلق قلب سے ہے صرف زبان سے اقرار ايمان کے لئے کافي نہيں ہے چنانچہ صرف زباني باتيں سنکر کسي کے ايمان کا فيصلہ کرنا درست نہيں ہے - منافقت خود فريب اور دھوکہ ہے لہذا خودفريبي ميں مبتلا نہيں ہونا چاہئے اور نہ ہي کسي کا ظاہر ديکھ کر دھوکہ کھانا چاہئے - دوسروں کو بھي دھوکہ نہ ديں کيونکہ فريب کے آثار و نتائج خود فريب دينے والے کي طرف پلٹ آتے ہيں - اسلام نے منافق کے ساتھ برابر کا سلوک رکھا ہے منافق ظاہر ميں اسلام لاتا ہے اسلام نے بھي اس کو صرف ظاہر ميں مسلمان کا درجہ ديا ہے آخرت ميں ان کے لئے دردناک عذاب ہے - منافق خود کو بڑا عقلمند اور باشعور سمجھتا ہے ليکن بڑا ہي بے شعور ہے اور اتنا بھي نہيں سمجھتا کہ خدا کو فريب نہيں ديا جا سکتا؛ خدا سب کے ظاہر و باطن کو جانتا ہے اور اسي کے پاس سب کو پلٹ کرجانا ہے - نفاق ايک روحي بيماري ہے اور منافق ، بيمار کي طرح نہ صحت مند ہے نہ مردہ يعني نہ مومن ہوتا نہ کافر - اور نفاق کا سرچشمہ جھوٹ ہے جو تمام برائيوں کي جڑ ہے نفاق سے بيماري ميں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے -
بشکريہ آئي آر آئي بي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان