دور حاضر ميں اقبال کے فلسفہ خودي کي اہميت ( حصّہ چہارم )
اقبال کے خودي کے فلسفہ کا آغاز " اسرار خودي " سے ہوا جو 1915 عيسوي ميں شائع ہوا جس کے بعد برصغير کے صوفي حلقوں ميں اس کے خلاف بہت مخالفت شروع ہو گئي - اس کے ساتھ ہي جب مغرب ميں انہوں نے اسرار خودي کا انگريزي زبان ميں ترجمہ کيا تو مغربي دانشوروں نے بھي اس پر بےحد تنقيد شروع کر دي اور اسے احياۓ اسلام کے ليۓ ايک منظم کوشش سے تعبير کيا -
ڈاکٹر نعمل نے بھي ايک المانوي مستشرق بنام Nallina کے مضمون کا حوالہ ديا ہے جس ميں اسرار خودي کو پين اسلامزم کي ايک خطرناک آواز کہا تھا - اس کے برعکس يورپ ميں نکلسن ، آربري ، بوساني ، نعمل اور کئي دوسرے مداح بھي نصيب ہوۓ جو اقبال شناسي کي روايت کا حصہ بنے -
بيسويں صدي کے آخر ميں جب سابق سوويت يونين کا شيرازہ بکھر گيا تو مغربي ذرائع ابلاغ نے تہذيبوں کے درميان ٹکراؤ کو ہوا دينا شروع کر دي اور اسلام کو مغرب کے ليۓ مستقبل کا بڑا خطرہ قرار دينا شروع کر ديا - اسلام کو دنيا ميں بدنام کرنے اور لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے روکنے کي غرض سے بڑے پيمانے پر سازشيں تيار کي گئيں - گيارہ ستمبر سن 2001 عيسوي کو ورلڈ ٹريڈ سينٹر کو تباہ کرکے سارا ملبہ مسلمانوں پر گرا ديا گيا اور يوں بہانہ بنا کر اسلامي ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کي غرض سے فوجي مہم جوئي کا بھي آغاز کر ديا گيا -
يوسف سليم چشتي نے " شرح اسرار خودي " ميں مطالب سے پہلے ان تاريخي عوامل پر تفصيلي روشني ڈالي ہے جو اقبال کي فکر پر اثرانداز ہو کر فلسفہ خودي کي تخليق کا باعث بنے - انہوں نے دنيا ميں مختلف ممالک ميں مسلمانوں کي پستي کي وجوہات پر بھي تحقيق کي اور غربت ، جہالت اور تنگ نظري کو اصل وجوہات قرار ديا جو مسلمانوں کے زوال کا سبب بن رہي ہيں -
اقبال سے پہلے سيد جمال الدين افغاني مسلمانوں ميں تحريک بيداري کے ليۓ کوشش کر چکے تھے جسے ايک حد تک کاميابي بھي نصيب ہوئي - اس کے بعد مفتي محمد عبدہ ، سر سيد احمد خان، چشتي ، مختلف مذھبي تحريکوں ، علماء اور مشائخ نے اس مقدس مشن کو آگے بڑھايا -
برصغير کے مسلمانوں کي نمائندہ جماعت نہ تھي اور وہ کانگرس کے رحم وکرم پر تھے - جب 1908 عيسوي ميں اقبال وطن واپس لوٹے تو انہوں نے مسلمانوں کي حالت زار ديکھ کر مسلمانوں کو انحطاط سے نکالنے اور انہيں جدوجہد پر مائل کرنے کے ليۓ اکسايا
شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان