دارالفنون کے کام کرنے کا آغاز
دارالفنون کا تعارف
اطريشي استاد جب تہران تک پہنچھے امير کبير برخواست کيا گيا تھا اور مرزا آقا خان نوري نے سرد مہري سے ان کي خاطر افزائي کي-
ڈاکٹر پلاک ان اساتذہ ميں سے اس بے مہري سے بھر پور خاطر افزاي کے بارے يوں لکھ چکا ہے:
ہم 24 نومبر سنہ 1851 ھ تہران تک پہنچھ گئے- کسي نے ہمارا استقبال نہيں کيا تھوڑي دير بعد ہميں پتہ ہوا کہ ايران کے احوالات ميں تبديلياں آئي ہيں اور ہمارے آنے سے کچھ دن پہلے بادشاہ کي ماں کي سازش کي وجہ سے مرزا کا سے برخواست کيا گيا تھا- ليکن جب امير کا پتہ ہوا ہم ايران ميں ہيں مرزا داوود خان کو کہا تھا کہ اگر ابھي تک صدر اعظم تھا ان کي آرامش کے اسباب کو تيار کرتا تھا- اب کوشش کريں وہ آرامي سے ايران ميں زندگي گذار سکيں-
جنرل شيل نے جو سنہ 1228 ش سے لے کر سنہ 1232 ش تک ايران ميں انگريز کا وزير مختار تھا اعتماد الدولہ کي ہمت بڑھائي تا اطريشي اساتذہ کے بجائے انگريزي استادوں کو بلائے-
اگر چہ مرزا آقا خان نوري نے مان ليا تھا ليکن ناصر الدين شاہ نے اسے منظور نہ کيا- اور جان داوود خان کو اعزازي تمغہ مل گيا چونکہ وہ ان استاذہ کے آنے کا موقعہ تيار کيا تھا-
چونکہ جان داوود خان وزارت امور خارجہ کے ملازموں ميں سے تھا اور اطريشي استاذہ کي ملازمت پر وزارت خارجہ نے دستخط کيا تھا کچھ عرصے تک دارالفنون کے امور وزارت امور خارجہ کے سپرد ميں تھے-
اسي لۓ محمد علي خان شيرازي (وزير خارجہ) نے کچھ حکومت کے لوگوں کي مشورت سے قاجار کے بزرگوں اور اميروں کے بچوں ميں سے سو طالب علموں کو دارالفنون ميں رجسٹر کرايا-
آخرالامر سنہ 1231 ھ - ش دارالفنون اپنے باني کے قتل کے تيرہ روز بعد طالب علموں کو سيکھانے لگا-
اس دن ميں ناصرالدين شاہ شکار گاہ جانے سے پہلے سکول ميں آيا اور بادشاہ اور ايراني اور غير ملکي اساتذہ کي موجودگي کے ساتھ شکوہ سے بھر پور جشن منايا گيا- پہلا سبق فوجي سبق تھا اور دوسرے علوم اس پر مزيد کيے گئے- انہي پہلے دنوں ميں اور پچاس طالب علم دارالفنون ميں رجسٹـر کۓ- پہلے سال ميں ان کي تعداد ايک سو پچاس تک پہنچھ گئے-
ترجمہ: آنا حمیدی
پیشکش: شعبہ تحریر و پیشکش تبیان