تعزيھ کي تاريخ
تعزيھ کو ہميشہ ايران ميں ہونے والے مذھبي، عزاداري کے مراسموں ميں شامل کيا جاتا رہا ہے اور محرم کے دنوں ميں اس کا بہت اچھے طريقے سے اہتمام کيا جاتا رہا ہے -
تعزيھ کے متعلق دقيق قسم کي تاريخي معلومات تو حاصل نہيں ہو سکي ہيں مگر بعض ايراني اس کا تعلق ظہور اسلام سے بھي پہلے مرنے والے ايک مظلوم پہلوان کي داستان کے ساتھ جوڑتے ہيں اور يوں تعزيھ کو اسي کي ايک شکل جانتے ہيں - دوسرے لوگوں کا خيال ہے کہ اس کا رواج ظہور اسلام اور واقعہ کربلا کے بعد پڑا اور واقعہ کربلا کي بنياد پر ہي تعزيھ وجود ميں آيا -
حضرت علي عليہ السلام کي اولاد سے محبت رکھنے والے عراق ، ايران اور ديگر شيعہ نشين علاقوں کے رہنے والوں کي طرف سے تعزيھ کو شہداء کربلا کے سوگوار کے طور پر منايا جاتا تھا -
ايک عرب اديب ، محقق اور تاريخ دان جناب ابوحنيفھ ديينوري اپني کتاب " اخبار الطوال " ميں آل علي عليہ السلام کي سوگواري کے متعلق کچھ يوں لکھتا ہے کہ
" اس سوگواري کے مراسم کو رسمي اور علي الاعلان تاريخ ميں پہلي بار آل بويھ کے دور حکومت ميں منايا گيا اور وہ ايسے ہوا کہ معزالدولہ احمد بن بويھ نے دس محرم سن 352 ہجري قمري کو بغداد ميں لوگوں کو حکم ديا کہ حسين بن علي عليہ السلام کي ياد ميں اپني دکانوں کو بند کر دو ، بازاروں ميں تعطيل کا اعلان کر دو اور خريد و فروش مت کرو ، نوحے پڑھو اور سياہ لباس پہنو اور يوں لوگوں نے اس پر عمل کيا - "
تعزيھ کے لغوي معني سوگواري ، تعزيت ، تسليت ، صبر کرنے کي تلقين اور مرنے والوں کے خاندان کي احوال پرسي کے ہيں ليکن اصلاح ميں ايک خاص قسم کے مذھبي مراسم کي نمائش سے منظوم کہا گيا ہے کہ جس ميں بعض اہل ذوق افراد مذھبي مراسموں ميں بڑے پرجوش طريقے سے محرم ميں اپنے غم و اندوہ کا اظہار کرتے ہيں - جس ميں ان کي نيت شفاعت اولياء کرام سے بہرہ مند ہونا ، تندرستي کا حصول ، اپني ارادت و خلوص کا اظہار اور خاص طور پر اھل بيت عليھم السلام سے اپني عقيدت کا اظہار ہوتا ہے - ان کي کوشش ہوتي ہے کہ وہ مذھبي اور تاريخي موضوعات جو اھل بيت عليھم السلام سے متعلقہ ہوں ، خاص طور پر واقعہ کربلا کي ياد کو لوگوں کے سامنے تازہ کريں -
تحرير و پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان