زرتشتي عقائد کے پروکار مردوں کے ساتھ کيا کرتے ہيں ؟
" دخمھ " فارسي زبان کا لفظ ہے جو دراصل ايک گول عمارت کو کہا جاتا ہے جہاں پر زرتشتي مذھب کے پيروکار اپنے مردوں کو دفناتے ہيں - يہ ايک قديم رسم ہے - يہ رسم ايران اور ہندوستان کے بعض حصّوں ميں کم و بيش اب بھي جاري و ساري ہے - ايران ميں آج بھي بعض زرتشتي اپني اس قديم ثقافت کو اپناۓ ہوۓ ہيں - ايران ميں بسنے والے زرتشتي اس جگہ کو " دادگاہ " يعني عدالت کي جگہ کہتے ہيں جبکہ ہندوستان ميں اس مقام کو " دخمو " کہا جاتا ہے -
زرتشتي مذھب کے پيروکاروں ميں ايک رسم يہ بھي تھي کہ فوت ہوجانے والے کي لاش کو رات کے اندھيرے ميں دفن نہيں کرتے تھے - لاش کو دفن کرنے کے ليۓ صبح ہونے کا انتظار کيا جاتا تھا - لاش کو دفن کرنے کے ليۓ آنے والے افراد يا تو سفيد لباس ميں ملبوس نظر آتے يا اپنے سروں پر سفيد رنگ کي ٹوپياں پہن کر آتے - اس کے علاوہ بعض لوگ چمکدار قسم کے لباس ميں ملبوس ہو کر بھي اس ميں شريک ہوتے -
زرتشت مذھب کے پيروکار لاش کو نہلاتے بھي ہيں - اس کام کے ليۓ اگر لاش کسي مرد کي ہو تو مرد ہي اسے نہلاتے اور لاش عورت کي ہو تو خواتين اس کام کو انجام ديتيں - اس کام کي انجام دھي کے ليۓ گرم پاني اور صابن استعمال کيا جاتا تھا - نہلانے کے بعد مردے کو ايک سلے ہوۓ کپڑے ميں رکھا جاتا جس کا رنگ سفيد ہوتا تھا - اس کے بعد لاش کو ايک آہني تابوت ميں رکھ ديا جاتا جسے چار افراد اٹھاتے اور مرنے والے کا سب سے بڑا بيٹا جنازے کے آگے چلتا - اس کا بڑا بيٹا اپنے دائيں بازو پر ايک سبز رنگ کي پٹي باندھتا تاکہ يہ پيغام دے سکے کہ اس کے خاندان ميں ابھي بھي زندگي کي لہر موجود ہے - مرنے والے فرد کا کوئي رشتہ دار خوشبودار آگ يا مؤطر لکڑي ليۓ جنازے سے آگے حرکت کرتا - عورتيں بھي اس مراسم ميں شريک ہوتيں اور ہاتھوں ميں عود کي خوشبودار جلتي ہوئي لکڑي اور سرونما ايک درخت کي شاخيں ليۓ ہوتيں جنہيں وہ بعد ميں قبر کي مٹي پر پاني ڈالنے کے بعد رکھ ديتي تھيں - اس کے بعد يہ لوگ اوستا کا ايک جملہ " (ايريس تنام يزه مئيده يا اشه ونام فره وشه يو) اور تين بار " اشم وهو " کہہ کر اس مراسم کو ختم کر ديتے تھے - اس کے بعد مرنے والے کي ياد ميں تيسرے ، چوتھے ، تيسويں اور ايک سال بعد تقريب کا اہتمام کيا جاتا ہے -
تحرير : سيد اسداللہ ارسلان