سورۂ حمد کي آيت نمبر 5 کي تفسير
قرآن حکيم کي قرات و تلاوت کے سلسلے ميں بھي يہ بات ياد رکھنا چاہئے کہ قرآن کي تلاوت اگرچہ ديکھنے اور پڑھنے کے عنوان سے بھي عبادت شمار ہوتي ہے ليکن اس کا پڑھنا اس کے مطالب کو سمجھنے اور عملي کرنے کے لحاظ سے لازم اور احسن ہے اسي لئے خدا نے سورۂ ص ميں فرمايا ہے: " ہم نے آپ پر يہ مبارک ( و عظيم الشان) کتاب اس لئے نازل کي ہے کہ لوگ اس کي آيات پر غور و فکر کريں اور صاحبان عقل و خرد اس سے تنبہ اور سبق حاصل کريں-" قرآن حکيم کي اسي دعوت فکر و نظر کے ساتھ آئيے سورۂ حمد کي پانچويں آيت کي تلاوت سنتے ہيں : " ايّاک نعبد و ايّاک نستعين" ( يعني خدايا!) ہم صرف اور صرف تيري ہي عبادت کرتے ہيں اور تجھ سے ہي مدد چاہتے ہيں- خدائے عظيم کے اسمائے حسني " اللہ" اور " رحمن و رحيم" کے ذريعے اس کي الوہيت ، ربوبيت، رحمانيت اور رحيميت کي معرفت اور دنيا ؤ آخرت ميں اس کي کسي بھي محدوديت و مشارکت کے بغير کامل مالکيت پر ايمان و يقين کے بعد بندہ اپنے آپ کو اللہ کي بارگاہ ميں حاضر و ناظر پاتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ ہمارا اکيلا اور يگانہ پروردگار پورے عالم ہستي کا خالق اور تمام صفات جماليہ و کماليہ کا حامل ہے اور تمام حمد و ستائش اسي سے مخصوص ہے " ربّ العالمين" يعني اللہ تمام دنياؤ ں کا پروردگار اور " مالک يوم الدّين" يعني روز جزا کا مالک و مختار ہے اور اس کے بعد خود پر نگاہ ڈالتا ہے ہم کيا ہيں اور ہماري بساط کيا ہے ؟ ايک ذرۂ بے مقدار سے بھي حقير، اس نے اپني خلقت کے ذريعے ہم کو آدميت عطا کردي، حيات دي اور پرورش کے لئے شفيق و مہربان آغوش، محبتوں سے سرشار معاشرہ اور بے شمار نعمتوں سے بھري دنيا عطا کي- وہ نہ صرف ہمارا بلکہ يہ دنياؤ ما فيہا کہ جس سے ہم اور پوري کائنات فيض اٹھارہي ہے، سب کا خالق و پروردگار ہے لہذا ہمارا فطري حق ہے کہ ہم اس کے سامنے اپني عاجزي و ناتواني کااعلان کريں کہ ہم سب تيرے اور صرف تيرے بندے ہيں تيري ہي عبادت و پرستش کرتے ہيں اور تيرے سوا کسي کو بھي ، حتي ماں اور باپ کو کہ جنہيں تو نے ہي ہمارے وجود کا ذريعہ بنايا ہے يا نبي و امام کو کہ جنہيں تو نے ہي خود تک واپس پہنچنے کا وسيلہ قرار ديا ہے، عبادت و پرستش کے لائق نہيں سمجھتے اور تيرے احکام و دستور کے خلاف کسي کي بھي پيروي نہيں کرتے تيرے حلال کو حلال اور تيرے حرام کو حرام سمجھتے ہيں نہ زر کے بندے ہيں نہ زور کے ، ہم کسي بھي طاغوت يا سامراجي نظام اور قوت کا قلادہ اپني گردن ميں ڈالنے کو ہرگز تيار نہيں ہيں اور عبادت و پرستش کي عظيم ترين جلوہ گاہ نماز ميں صف در صف بہ يک آواز اعلان کرتے ہيں: " ايّاک نعبد و ايّاک نستعين" خدايا! ہم صرف اور صرف تيري ہي عبادت کرتے ہيں اور تجھ سے ہي مدد چاہتے ہيں-يعني ہم سب کے سب نہ صرف يہ کہ تيرے بندے ہيں اور تيري ہي عبادت کرتے ہيں بلکہ تو ہمارا خالق و پروردگار ہے اس لئے تيري مدد کے محتاج ہيں اور تجھ سے ہي مدد کے طلبگار ہيں کيونکہ اگر تيري مدد اور توفيق شامل حال نہ ہو تو ہم چاہ کر بھي تيري عبادت اور تيري بندگي نہيں کرسکتے عبادت کا حق ادا کرنا تو کجا اگر خدا کي مدد شامل حال نہ ہو تو انسان " غير اللہ " کي بندگي اختيار کرليتا ہے - خدا کي بندگي کي منزل ميں خدا کي مدد لازم ہے اور اس راہ ميں اسي سے مدد طلب کرنا چاہئے -البتہ يہ بات بھي پيش نظر رہے کہ يہ دنيا عالم اسباب ہے اور سب ايک دوسرے کے ضرورتمند ہيں اور بيماري ميں ڈاکٹر سے يا مکان بنوانے کے لئے انجينئر اور کاريگر سے قانوني معاملات ميں وکيل سے گھر ميں بيوي بچوں سے يا ماں باپ سے يا معاشرتي امور ميں دوستوں سے مدد حاصل کرنا خدا سے مدد چاہنے کہ منافي نہيں ہے يہ عالم اسباب بھي خدا کا ہي بنايا ہوا نظام ہے اور اسباب کے ماتحت مدد چاہنا يا مدد کرنا ہرگز شرک نہيں ہے خود قرآن ميں حضرت عيسي عليہ السلام کي زباني سورۂ صف کي 14 ويں آيت ميں آيا ہے کہ آپ نے اپنے حواريوں سے فرمايا :" من انصاري الي اللہ " يعني اللہ کے دين کے لئے کون ميري مدد کرے گا ؟ اسي طرح جنگ خيبر ميں خود پيغمبر اسلام (ص) نے يہوديوں کے خلاف جنگ سرکرنے کے لئے " ناد عليا مظہر العجائب" پڑھ کر علي ابن ابي طالب کو مدد کے لئے آواز دي تھي اور مومنين کو بھي قرآن نے حکم ديا ہے: " و تعاونوا علي البرّ و التّقوي" نيکي اور پرہيزگاري ميں ايک دوسرے کي مدد کيا کرو، لہذا خدا کي مدد کے سايہ ميں وسيلے اور سبب کے عنوان سے مدد مانگنا يا مدد کرنا، نہ شرک ہے نہ بدعت بلکہ قرآن کي روشني ميں ايک ممدوح و مستحسن عمل ہے-سورۂ نساء کي 28 ويں آيت خلق الانسان ضعيفا" کے مطابق انسان کو کمزورخلق کيا گيا ہے وہ موحد ہو يا ملحد بہرصورت کمزور و محتاج ہے فرق يہ ہے کہ موحد اپني تمام ضرورتوں کا پورا کرنے والا براہ راست يا بالواسطہ خدا کو ہي مانتا اور جانتا ہے جبکہ ملحد عالم فطرت کو حاجتيں رفع کرنے والا خيال کرتا ہے اور يہ شرک ہے جس کي اسلام نے ہرگز اجازت نہيں دي ہے چونکہ نزول اور سعود و کمال سے متعلق تمام امور کي زمام و لجام خدا کے ہاتھ ميں ہے اس لئے عبادت اور توکل کي منزل ميں صرف اور صرف خدا کو سامنے رکھنا ضروري ہے اور اسي چيز کا ايک بندۂ مومن " ايّاک نعبد و ايّاک نستعين" ميں اعلان کرتا ہے چونکہ اس نے غفلت و جہالت کےتمام حجابات چاک کردئے ہيں وہ صرف اسي کو ديکھتا اور اسي کے سامنے اپني بندگي کا اقرار و اعلان کرتا ہے-البتہ لفظ " نعبد" ميں جمع کي ضمير کي وسعت و گيرائي خود اس شخص کي معرفت کے ساتھ وابستہ ہے جو يہ لفظ اپني زبان پر جاري کرتا ہے ايک دفعہ وہ خود کو سامنے رکھ کر کہتا ہے " ہم بس تيري ہي عبادت کرتے ہيں" تو يہاں جمع کا استعمال مقام تعظيم ميں ہے اور " ہم" " ميں " کي انانيت سے بچنے کے لئے ہے کہ خدا کے حضور " ميں " کا شائبہ بھي پيدا نہ ہونے پائے؛ ايک دفعہ لفظ " نعبد" کا ادا کرنے والا اپنے ساتھ کھڑے خدا کے دوسرے بندوں کو بھي شامل کرتا ہے کہ " ہم سب صرف تيري ہي عبادت کرتے ہيں ليکن ايک دفعہ اس کي نگاہيں پورے عالم ہستي کو خدا کي بارگاہ ميں خاضع اور سربہ سجود ديکھتي ہيں اور " نعبد" ميں تمام عالم ہستي کو شامل کرتا ہے کيونکہ سورۂ مريم (ع) کي آيت ترانوے ميں خود قرآن نے اعلان کيا ہے: ان کلّ من في السّموات و الارض الّا اتي الرّحمن عبدا" قيامت کے دن زمين و آسمان کي تمام موجودات خدائے رحمن کي بارگاہ ميں عبد کي طرح آئيں گي اور ان کي بندگي سب پر آشکار ہوجائے گي- چنانچہ جس بندے پر يہ حقيقت آشکارا ہوجائے وہ نہ صرف خود کو بلکہ وہ اپنے تمام اعضاؤ و جوارح کو خدا کي بندگي ميں دے ديتا ہے اور پورا عالم ہستي اسے خدا کا عبادتگزار نظر آتا ہے اور وہ خود کو عبادت گزاروں کے ايک عظيم کارواں کا ايک حصہ خيال کرتا ہے اور وہ خود کو ، يا کائنات کي کسي بھي دوسري شےء حتي جنت کي خواہش يا جہنم کا خوف سامنے رکھے بغير صرف اور صرف خدا کے لئے خدا کي عبادت کرتا ہے اور صرف لقائے پروردگار کا خواہشمند ہوتا ہے اور نتيجہ ميں صرف خدا سے مدد طلب کرتا ہے اور حکم خدا ؤ رسول کے خلاف کسي کي اطاعت قبول نہيں کرتا-معلوم ہوا عالم آفرينش پر حکمراں قوانين و ضوابط خود خداوند عالم کے ايجاد کردہ ہيں اور اسي کي تدبير اور فيصلے کي نشان دہي کرتے ہيں لہذا پوري کائنات خدا کے سامنے تسليم ہے اور صرف و صرف خدا کي عبادت کرتي اور خدا سے ہي مدد طلب کرتي ہے ہم کو بھي اپنے تمام امور ميں اسي کي عبادت کرنا اور اسي سے مدد طلب کرنا چاہئے -البتہ خدا کي عبادت اور توکل کے ساتھ خدا کے ايجاد کردہ وسيلوں اور ذريعوں سے استفادہ اور تعاون حتي دعاؤ نماز ميں توسل و تمسک جائز ہے اور اس کو شرک سمجھنا اور سمجھانا، عالم اسباب کے قوانين سے ناآشنائي کي دليل ہے -
بشکريہ آئي آر آئي بي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان