سورۂ حمد کي آيات نمبر 4-2 کي تفسير
اسي قرآن حکيم کے سورۂ زمر کي اٹھارہويں آيت ميں اپنے مخلص بندوں کا تعارف کراتے ہوئے خدا نے ايک خصوصيت يہ بتائي ہے کہ وہ باتيں سب کي سنتے ہيں مگر جو اچھي باتيں ہوتي ہيں ان ہي پر چلتے ہيں اللہ ايسے ہي لوگوں کي ہدايت کرتا ہے اور يہي لوگ عقلمند ہيں اور پيغمبر اکرم (ص) نے فرمايا ہے تم ميں سب سے زيادہ خدا کي معرفت اسي کو حاصل ہے جو سب سے زيادہ کتاب (خدا) کا علم رکھتا ہے چنانچہ شروع سے ہي لوگ قرآن کے معاني و مطالب سے آشنائي اور تفسير و تشريح کي کوشش کرتے چلے آرہے ہيں خود نبي اکرم (ص) کے زمانے ميں کلام اللہ کي تفسير کا سلسلہ شروع ہوگيا تھا اور بحمداللہ يہ سلسلہ آج بھي جاري ہے اور مشہور مصري مفسر طنطاوي کے بقول: " ہر شخص اپني فکر و استعداد کے مطابق خدا کي کتاب سے فائدہ اٹھاتا ہے" ليکن کوئي بھي حق مطلب ادا ہوجانے کا دعوي نہيں کرسکتا حتي امام خميني رضوان اللہ عليہ کي مانند افراد بھي کہتے ہيں کہ " ميرے جيسے لوگ بھي حق ادا نہيں کرسکے ہيں" جو کچھ کہا ہے احتمال کے طور پر بيان کيا ہے حقيقت تو يہ ہے کہ جب تک انسان خدا، انبياء، اوليا، ائمۂ اطہار اور کلام اللہ ناطق (حضرت وليعصرعج) سے وابستہ نہ ہو قرآن سے جيسا ہونا چاہئے فائدہ نہيں اٹھا سکتا- بہرحال سورۂ حمد کے سلسلے ميں اپني عاجزانہ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ہم نے " بسم اللہ " کے ذيل ميں چند نکات بيان کئے تھے کہ کسي بھي کام سے پہلے اپنے خالق و پروردگار کا نام لينا ضروري ہے تا کہ خدا کو جانيں پہچانيں اور اپنے امور پوري معرفت کے ساتھ اس کے حوالے کرديں تو کام اچھے انجام کا حامل ہوگا- اور اب دوسري آيت ارشاد ہوتا ہے : " الحمد للہ رب العالمين" ( يعني) تمام تعريف و تمجيد خدا سے مخصوص ہے جو تمام دنياؤ ں کا پروردگار ہے - عزيزان محترم! خدا کے نام و ذکر کے بعد سب سے پہلے اس خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے جو تمام دنياؤ ں کا خالق و پروردگار ہے چاہے وہ انسانوں کي دنيا ہو يا حيوانوں کي جمادات کي دنيا ہو يا نباتات کي آسماني دنيا ہو يا زميني، ہر دنيا اور اس ميں موجود ہر وجود کا پيدا کرنے اور پالنے والا اللہ ہي ہے -اللہ نے ہي شہد کي مکھي کو سکھايا ہے کہ وہ کس پھل ، پھول اور سبزے سے غذا حاصل کرے اور کس طرح اپنا کھوتا تيار کرے- اللہ نے ہي ايک چيونٹي کو تعليم دي ہے کہ وہ کس طرح ٹھنڈک اور برف باري کے زمانے کے لئے اپنا آذوقہ ذخيرہ کرے اور وہي ہے جو گيہوں کے ايک دانے سے گيہوں کے دسيوں گچھے اور خوشے پيدا کرديتا ہے اور سيب کے ايک بيچ سے ايک پورا درخت کھڑا کرديتا ہے، اسي نے اس عظيم و سربلند آسمان کا شاميانہ تانا اور اس وسيع و عريض زمين کا فرش بچھايا ہے اسي نے ہي چھوٹے بڑے بے شمار کروں، سياروں اور کہکشانوں کو خلق کيا اور ايک مخصوص راہ و روش پر گامزن کررکھا ہے پس اس کي جتني بھي تعريف کي جائے اور جتنا بھي شکر ادا کيا جائے کم ہے-وہي وہ خدائے عظيم ہے جس نے ہم کو پاني کے ايک نجس اور حقير قطرے سے وجود ديا ماں کے شکم ميں پرورش کي اور ولادت و نشو و نما کے وسائل و اسباب فراہم کردئے کہ ہم صحت و سلامتي کے ساتھ پروان چڑھيں بيماريوں کے جراثيم کا دفاع کريں ہڈياں ٹوٹ جائيں تو اس کو تبديل کرسکيں بدن کي ضرورت کے مطابق خون تيار کريں اور سانس ليتے رہيں-چنانچہ اس نے نہ صرف يہ کہ ہماري جسماني نشو و نما اور پرورش کا انتظام کيا ہے بلکہ ہماري روح وجان کي تربيت و رہنمائي بھي اسي کے ہاتھ ميں ہے ہماري عقل اور شعور و ادراک بھي اسي کا مرہون منت ہے اور اسي نے ہماري فلاح و نجات کے لئے الہي ہدايت و رہبري کي صورت ميں نبيوں اور رسولوں کو بھيجا نيز آسماني کتابوں کا سلسلہ قائم رکھا ہے -ہم ہوں يا ہمارے گردو پيش ظاہر و باطن پوري کائنات اسي کي پيدا کي ہوئي ہے اور اسي کي وجہ سے باقي و برقرار ہے تمام عالم اور اس کي ايک ايک چيز " اسم اللہ " اور " آيت اللہ " يعني "اللہ کا نام " اور " اللہ کي نشاني" ہے ہر چيز اسي کي طرف رہنمائي کرتي ہے خود انساني عقل فطرت کے مطابق اس بات کو جانتي اور سمجھتي ہے کہ کوئي شے اپنے آپ وجود ميں نہيں آتي بلکہ ايک ازلي اور ابدي قوت نے ہر شے کو وجود عطا کيا ہے اور ہرشے اپنے کمال و ارتقاء ميں اسي ذات کي محتاج ہے جو خود ہر چيز سے غني اور بے نياز ہے اور تمام موجودات عالم خدا کي ہي حمد و ستائش کرتے ہيں يہ اور بات ہے کہ ہمارا شعور و ادراک محدود ہے اور ہم ان کي تسبيح و تقديس کو درک کرنے سے قاصر ہيں -معلوم ہوا ہم اور يہ پوري کائنات صرف اپنے وجود اور تخليق و ايجاد ميں ہي خدا کے محتاج و ضرورتمند نہيں ہيں بلکہ اپني حيات اور پرورش ميں بھي اس کے ضرورتمند ہيں چنانچہ خدا کا رشتہ اپني موجودات کے ساتھ ايک دائمي رشتہ ہے اور پوري کائنات کي طرح ہم کو بھي ہميشہ اس کي حمد و ستائش کرتے رہنا چاہئے -اسلامي روايات کي روشني ميں اس دنيا کے بعد قيامت اور آخرت ميں بھي اہل بہشت کا کلام"الحمدللہ ربّ العالمين " ہوگا-اور اب سورۂ حمد کي تيسري آيت " الرّحمن الرّحيم" ( وہ اللہ ) جو دائمي رحمتوں اور بخششوں والا بڑا مہربان ہے -عزيزان محترم! ہم جس خدا کو مانتے اور اپنا خالق و پروردگار سمجھتے ہيں وہ مہر و محبت اور بخشش و عنايت کا مظہر ہے اس نے ہم کو ہماري پيدائش اور پرورش کے سلسلے ميں جن محبتوں اور رحمتوں سے نوازا ہے وہ اس کے رحيم و مہربان ہونے کي بہترين دليل ہے - ماں اور باپ کي محبت بھري آغوش دي اور ان کے دلوں ميں اپني جان سے زيادہ اپني اولاد کي محبت وديعت کردي اور اس کے بعد بھي اپنے بندوں کے حق ميں اس قدر رحمت و شفقت کا مظاہرہ کيا کہ جس کے سامنے محبت مادري بھي ہيچ نظر آتي ہے قہر و غضب بھي گمراہي اور نافرماني کے بعد گناہ و بداعمالي سے دوري اور پرہيزگاري کے لئے ہے کينہ و انتقام کے جذبوں کي تسکين کے لئے نہيں ہے انتقام صرف وہاں ہے جہاں بندوں نے سرکشي اور ڈھٹائي يا ظلم و تعدي سے کام ليا ہے- ورنہ اگر ايک بندہ توبہ ؤ استغفار سے کام لے تووہ بھي رحمت و مغفرت سے کام ليتا ہے بلکہ دنيا ميں بھي گناہوں اور خطاؤ ں پر لطف و عنايت کا پردہ ڈال ديتا ہے - الہي رحمت و مہرباني کے نمونے دنيا ميں ہر طرف بکھرے ہوئے ہيں اچھے ہوں يا برے سبھي پھولوں کي خوشبو اور حسن و زيبائي سے لطف اٹھاتے ہيں پھلوں کے ذائقے اور قوت و توانائي سے بہرہ مند ہوتے ہيں لذيذ غذاؤ ں، رنگارنگ لباسوں اور حسين و مستحکم مکانوں سے فائدہ اٹھاتے اور آب و ہوا و فضا اور ظاہر و پوشيدہ سيکڑوں ذخائر و معادن، وہوش و طيور اور نفوس و انفس سے استفادہ کرتے ہيں معلوم ہوا خداوند عالم اس قدر رحيم و مہربان ہے کہ وہ اپني تمام خلقت کي رحمت و محبت کے ساتھ پرورش کرتا ہے اگر وہ" ربّ العالمين" ہے تو وہ " رحمن الرّحيم" بھي ہے، موجودات عالم کا آغاز و انجام سراسر رحمت و مہرباني سے معمور ہے -اور يہ چيز پرورش و تربيت سے تعلق رکھنے والے تمام والدين، سرپرست اور معلمين و مدرسين سے خاص طور پر تقاضا کرتي ہے کہ وہ پرورش و تربيت ميں محبت و مہرباني سے کام ليا کريں- اور اب سورۂ حمد کي چوتھي آيت، ارشاد ہوتا ہے: " مالک يوم الدّين"( يعني وہ خدا جو) " روز جزا" يا " قيامت کے دن " کا مالک و مختار ہے-عزيزان محترم! عربي ميں دين، آئين و مذہب کے معني ميں بھي آيا ہے اور جزاؤ بدلہ دينے کے معني ميں بھي استعمال ہوا ہے چنانچہ " يوم الدين" سے مراد قيامت کا دن ہے کہ جس دن اللہ اپنے بندوں سے ان کے اچھے يا برے اعمال و کردار کا حساب کتاب لےگا اور جزا ؤ سزا دے گا- يہاں قابل توجہ بات يہ ہے کہ خداوند عالم نے خود کو روز آخرت کے مالک و مختار کے عنوان سے متعارف کرايا ہے جبکہ وہ دنيا و آخرت سب کا مالک و مختار ہے بظاہر اس کي وجہ يہ ہوسکتي ہے کہ دنيا ميں اللہ نے اپنے مکلف اور " مفروض الطاعہ" بندوں کو مختار بنايا ہے کہ وہ اپني دنيوي زندگي کي راہ و روش کا خود انتخاب کريں تا کہ اپنے اعمال و کردار کي بنياد پر جزا و سزا کے مستحق قرار پائيں ليکن آخرت ميں سب کے سب کامل طور پر خدا کے اختيار ميں ہوں گے -آخرت ميں الہي قدرت و اختيار کي جلوہ نمائي کا انداز کچھ اور ہي ہوگا حتي اس کي اجازت کے بغير شفاعت کرنے والے نبيوں اور اماموں کو بھي کسي کي شفاعت اور سفارش کا حق نہيں ہوگا وہاں لوگوں کي ہر طرح کي ملکيت اور اختيار سلب کرليا جائے گا مال و دولت، بيوي بچے، عزيز و دوست کوئي کام نہيں آئے گا حتي خود اپنے اعضا ؤ جوارح انسان کے اختيار ميں نہ رہيں گے نہ زبان عذر تراشي کرسکتي ، نہ عقل و فکر تدبير و تزوير سے کام لے سکتي نہ ہاتھ پاؤ ں دفاع و فرار ميں مددگار ہوں گے خدا کي سب پر حکمراني ہوگي اور سب کے سب خدا کے گواہ ہوں گے-معلوم ہوا؛ اللہ کي بے انتہا رحمت و مہرباني کے ساتھ ہي ساتھ آخرت ميں اس کے کمال اختيار کے ساتھ، حساب و کتاب کا بھي ہر وقت خيال رکھنا چاہئے تا کہ ہم اس دنيا ميں خدا کي دي ہوئي قوت و طاقت اور اختيار و اقتدار سے غلط فائدہ اٹھانے کي کوشش نہ کريں- علاوہ ازيں، روز قيامت پر ايمان و اعتقاد کے ساتھ ہميں يقين رکھنا چاہئے کہ دنيا ميں کوئي بھي اچھا يا برا کام خدا سے چھپا ہوا نہيں ہے وہ پورے انصاف کے ساتھ ہمارے ہر عمل کي جزا دے گا اور اس کے فيصلے ميں کسي کو مداخلت کا حق حاصل نہيں ہوگا -
بشکريہ آئي آر آئي بي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان