امامت کي ملوکيت ميں تبديلي
اسلام کے ہاتھوں ايک آئيڈيل حکومت کي نبياد رکھي گئي ، اگر ہم اِس تناظر ميں واقعہ کربلا اور تحريک حسيني کا خلاصہ کرنا چاہيں تو اِس طرح بيان کرسکتے ہيں کہ امام حسين (ع) کے زمانے ميں بشريت؛ ظلم و جہالت اور طبقاتي نظام کے ہاتھوں پس رہي تھي اور دنيا کي بڑي بڑي حکومتيں خواہ وہ ايراني شہنشائيت ہو يا رومي سلطنت و بادشاہت، سب کي سب غير عوامي، عياشي، ظلم و ستم اور جہالت و برائيوں کي حکومتيں تھيں-
اِسي طرح نسبتاً چھوٹي حکومتيں جو جزيرۃ العرب ميں قائم تھيں، اُن سے بدتر تھيں غرضيکہ پوري دنيا پر جہالت کے سياہ بادل چھائے ہوئے تھے- اِس ظلمت و تاريکي ميں نور اسلام نے پيغمبر خدا (ص) کے وسيلے، امداد الٰہي اور عوام کي طاقت فرسا جدوجہد کے ذريعہ جزيرۃ العرب کے ايک علاقے کو منور کيا، بعد ميں يہ نور آہستہ آہستہ پھيلتا رہا اوراُس نے ايک وسيع و عريض علاقے کو منور کر ديا-
جب حضرت ختمي مرتبت (ص) کا وصال ہوا تو آپ کي يہ حکومت ايسي حکومت تھي جو تاريخ بشريت ميں سب کيلئے ايک آئيڈيل تھي اور اگر وہ حکومت اُسي طرح باقي رہتي تو بلاشک و شبہ وہ تاريخ کو تبديل کرديتي يعني جو کچھ صديوں کے بعد يعني امام زمانہ کے ظہور کے زمانے ميں ظہور پذير ہوتا وہ اُسي زمانے ميں وقوع پذير ہوجاتا- امام زمانہ کے ظہور کے بعد کي دنيا عدل و انصاف، پاکيزگي، سچائي اور معرفت و محبت کي دنيا ہے، اِس عالم ہستي کي حقيقي دنيا امام زمانہ کے ظہور کے بعد کے زمانے سے متعلق ہے کہ يہ صرف خدا ہے جانتا ہے کہ اُس وقت بشر کن عظمتوں اور فضيلتوں کو حاصل کرے گا- بنابراِيں، اگر پيغمبر اسلام (ص) کي حکومت جاري رہتي تو تاريخ انسانيت تبديل ہو جاتي ليکن کچھ خاص حالات کي وجہ سے يہ کام انجام نہ پاسکا-
پيغمبر اسلام (ص) کي حکومت کي خصوصيت يہ تھي کہ ُاس کي بنياديں ظلم و ستم کے بجائے عدل و انصاف ؛ شرک اور انساني فکر کو متفرق اور پرا کندہ کرنے کے بجائے توحيد اور پروردگار عالم کي بندگي پر تمرکز؛ جہالت کے بجائے علم و معرفت اور حسد وکينے کے بجائے انسانوں ميں محبت و ہمدردي اور مداراکرنے کے رابطوں کي بنيادوں پر قائم تھي- ايسي حکومت کے سائے ميں پرورش پانے والا انسان ؛باتقويٰ ، پاکدامن ، عالم ، بابصيرت، فعال، پُرنشاط، متحرک اور کمال کي طرف گامزن ہوگا- ليکن پچاس سال بعد حالات بالکل ہي بدل گئے، نام کا اسلام رہ گيا اور لوگ صرف ظاہري مسلمان تھے ليکن باطن ميں اسلام و اسلامي تعليمات کا دور دور تک کوئي نام و نشان نہيں تھا- عدل و انصاف کي حکومت کے بجائے ظالم حکومت برسر اقتدار آ گئي، اُخوت و مساوات کي جگہ طبقاتي نظام اور گروہ بندي برا جمان ہو گئے اورنور ِمعرفت بجائے جہالت کے سياہ بادلوں نے لوگوں پر سايہ کرليا- اِن پچاس سالوں ميں آپ جتنا آگے کي طرف جاتے جائيں گے اور اگر انسان ايسي مثاليں ڈھونڈنا چاہے تو ايسے سينکڑوں مثاليں موجود ہيں جنہيں اہل تحقيق ، نوجوان نسل کيلئے بيان کرسکتے ہيں-
بشکريہ اسلام ان اردو ڈاٹ کام
پيشکش شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
واقعہ کربلا سے حاصل ہونے والي عبرتيں (حصّہ سوّم )