انسان دوستى اور بچّے
سب لوگ الله کے بندے ہيں سب کا ماں باپ ايک ہے اور در اصل ہر انسان ايک خاندان کا فردہے الله تعالى نے انہيں پيدا کيا ہے اور انہيں پسند کرتا ہے ہر کسى کو روزى ديتاہے ان کى ضروريات کو الله نے پيداکيا ہے اور پھر انہيں ان کے اختيار ميں ديا ہے عقل اور طاقت دى ہے تا کہ الله کى نعمات سے استفادہ کريں الله نے ان کى روح کو کمال تک پہنچانے اور ان کى اخروى سعادت کى طرف بھى توجہ فرمائي ہے ان کى ہدايت کا سامان بھى فراہم کيا ہے ان کى ہدايت و راہنمائي کے ليے انبياء کو بھيجا ہے اماموں اور دنى رہبروں کو مامور کيا ہے تاکہ وہ انسانوں کى سعادت اور انھيں کمال تک پہنچانے کى کوشش کريں يہ سب اس ليے ہے کہ الله اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور سب کى بھلائي اور سعادت کا آرزومند ہے اس نے سب انسانوں سےچاہا ہے کہ وہ ايک دوسرے کے ہمدرد ، مہربان ، خيرخواہ خوں اور ايک دوسرے کے ليے سودمند بنيں ايک دوسرے کے ساتھ نيکى کريں اور ايک دوسرے کى ضروريات پورى کريں مشکلوں اور مصيبتوں ميں ايک دوسرے کى فرياد کو پہنچيں انسانوں کے خدمتگزار بنيں اور سب کے فائدے کو ملحوظ خاطر رکھيں انسان کى خدمت گزار اور خيرخواہ الله کے خاص بندے ہوتے ہيں اور بلند مرتبے کے حامل ہوتے ہيں ان لوگوں کے ليے بہت زيادہ جزا مقرر کى گئي ہے دين اسلام کہ جو ايک مقدس اجتماعى نظام ہے اسنے اس بارے ميں توجہ دى ہے اور ان امور کو سب کى ذمہ دارى قرار ديا ہے پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا: ''سب بندے الله کا رزق کھاتے ہيں پسانسانوں ميں سے الله کے نزديک محبوب ترين وہ ہے جو انسانوں کو'' فائدہ پہنچائے يا کسى خاندان کو خوش کرے
امام صادق (ع) نے فرمايا:
''خدا فرماتا ہے کہ لوگ ميرارزق کھاتے ہيں اور بندوں ميں سے ميرے نزديک محبوب ترين وہ ہے کہ جو ميرے بندوں کے ليے زيادہ ہمدرد ہو او ان کى ضروريات کو پورا کرنے کے ليے زيادہ کوشش کرے ''
رسول خدا سے پوچھا گيا: کہ لوگوں ميں سے الله کے نزديک محبوب ترين کون ہے، آپ نے فرمايا:
وہ کہ جو لوگوں کے ليے سب سے زيادہ فائدہ رساں ہو
پيغمبر اکرم (ص) نے فرمايا:
دين کے بعدسب سے اہم دانائي لوگوں سے محبت اور نيکى ہے ہر کسى سے اگر چہ وہ اچھا ہو يا برا ہو
پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا:
''من اصبح و لم يہتمّ بامور المسلمين فليسبمسلم:''
جو مسلمان کے امور کے اصلاح کى فکر ميں نہ ہووہ مسلمان نہيں ہے ''
حضرت صادق عليہ السلام نے فرمايا: الله کے خاص بندے وہ ہيں کہ لوگ اپنى ضروريات کے وقت ان کى پناہ ميں آئيں يہى وہ لوگ ہيں جو قيامت ميں الله کى امان ميں ہوں گے
رسول اکرم (ص) نے فرمايا:
''جو شخص کسى مسلمان کى فريا د سنے اور اس کا جواب نہ دے وہ مسلمان نہيں ہے ''
نبى اکرم صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
''الله اپنے بندوں پر مہربان ہے اور وہ مہربان لوگوں کو دوست رکھتا ہے ''
پيغمبر اکرم اورائمہ اطہار (ع) سے ايسى سينکڑؤ ں احاديث مروى ہيں کہ جو حديث کى کتب ميں موجود ہيں شارع مقدس اسلام نے ايک وسيع نظر سے پورے انسانى معاشرے کو اور بالخصوص اہل ايمان کے معاشرے کو ايک کائي کے طور پر جانا ہے اور اپنے پيروکاروں سے خواہسکى ہے کہ وہ سب کى بھلائي اور سعادت کى کوشش کريں اور سب کے خيرخواہ بنيں اسلام سو فيصد ايک معاشرتى دين ہے اور وہ افراد کى بھلائي کو معاشرے کى بھلائي سمجھتا ہے اور وہ ہر طرح کى خود غرضى کے خلاف جہاد کرتا ہے ايک مسلمان اور ديندار شخص خود غرض نہيں ہو سکتا اور يہ نہيں ہوسکتا کہ وہ دوسروں کے مفادات کو نظر انداز کردے انسان دوستى ايک بہت ممتاز انسانى صفت ہے اور يہ انسان کے مزاج ميں داخل ہے البتہ تربيت کے ذريعے سے اسے کمال تک پہنچايا جا سکتا ہے اور يہ بھى ہوسکتا ہے کہ يہ ختم بھى ہوجائے يہ عادت بھى تمام پسنديدہ انسانى صفات کے مانند ہے کہ جس کى بنياد بچپن ہى ميں رکھى جانا چاہيے ماں باپ کا فريضہ ہے کہ وہ اپنى اولاد کو انسان دوست مہربان اور خيرخواہ بنائيں اگر ماں باپ خود مہربان اور خيرخواہ ہوں اور خير خواہى کے آثار ان کى گفتار و کردار ميں نظر آئيں تو وہاپنے بچوں کو بھى مہربان اور انسان دوست بنا سکتے ہيں فرض شناس اور آگاہ ماں باپ کبھى کبھى اپنے بچوں کے سامنے ان کى حالت بيان کر سکتے ہيں جو محتاج ہوں ، غريب ہوں ، ناتوان ہوں اور ممکن ہو تو ايسے لوگوں سے انہيں ملوا بھى سکتے ہيں اور بچوں سے کہہ سکتے ہيں يہ سب انسان ہيں اور ہمارے بھائي ہيں ان کے حقوق پامان کيے گئے ہيں يہ محروم و بے نوا ہيں ہميں چاہيے کہ ہم ان کا دفاع کريں اور ان کے پامان شدہ حقوق انہيں واپس دلوائيں اور اب وقتى طور پر جو کچھ ہمارے بس ميں ہے ان کى مدد کريں وہ بچوں کى موجودگى ميں بلکہ خود بچوں کے ذريعے سے ايسے افراد کى مدد کريں ماں باپ کبھى کبھى ظالموں کے ظلم اور مظلوموں کى غم ناک حالت بچوں سے بيان کريں نيز ايک مسلمان انسان کى اس بارے ميں ذمہ دارى بھى انہيں بتائيں وہ بچوں کو ہسپتال اور شفاخانوں ميں بھى لے جا سکتے ہيں اور محتاج بيماروں کو انہيں دکھا سکتے ہيں اور اس سلسلے ميں اسلام ذمہ دارياں انہيں بيان کرسکتے ہيں اور اپنى طاقت کے مطابق ان کى مدد بھى کرسکتے ہيں ننّعے يتييم بچے کہ جن کے سرپہ کوئي نہ ہو کى حالت بھى وہ بچوں کے سامنے بيان کرستے ہيں اور ممکن ہو تو ان سے ملوا بھى سکتے ہيں اور بچوں کو بتا سکتے ہيں کہ ان کى حمايت اور مدد کس قدر ضرورى ہے
بشکريہ : مکارم شيرازي ڈاٹ او آر جي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان