برائيوں کي گندگي سے اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے ديں
دين کي پيروي ، تقويٰ سے تمسک، پاکدامني کي اہميت اور معنويت کي قدر وقيمت کا اندازہ يہاں ہوتا ہے- يہ جو ہم بارہا موجودہ زمانے کے بہترين نوجوانوں کو تاکيد کرتے ہيں کہ آپ برائيوں کي گندگي سے اپنا دامن بچائے رکھيںتو اِس کي وجہ يہي ہے- آج اِن نوجوانوں کي طرح کون ہے جوانقلابِ اسلامي کے اُصولوں اور اہداف کا دفاع کرنے والے ہيں؟ يہ بسيجي (رضا کار) واقعاً بہترين نوجوان ہيں کہ جو علم، دين اور جہاد ميں سب سے آگے آگے ہيں، دنيا ميں ايسے نوجوان آپ کو کہاں نظر آئيں گے؟ يہ کم نظير ہيں اور دنيا ميں اتني کثير تعداد ميں آپ کو کہيں نہيں مليں گے؛بنابريں ، برائيوں کے سيلاب اور اُس کي اونچي اونچي موجوں سے ہوشيار رہيں-
آج الحمد للہ خداوند عالم نے اِس انقلاب کي قداست و پاکيزگي اور معنويت کو محفوظ بنايا ہوا ہے، ہمارے نوجوان پاک و طاہر ہيں ليکن وہ اِس بات کو اچھي طرح ذہن نشين کرليں کہ زن، زر اور زمين، عيش پرستي اور دنيا کي لذتيں بہت خطرناک چيزيں ہيں کہ جو مضبوط دلوں اور مستحکم ارادے والے انسانوں کے پائے ثبات ميں لرزش پيدا کرنے کيلئے کافي ہيں لہٰذا اِن امور اور اِن کے وسوسوں کا مقابلہ کرنے کيلئے قيام کرنا چاہيے- وہ جہادِ اکبر کہ جس کي اتني تاکيد کي گئي ہے،يہي ہے؛ آپ نے جہادِ اصغر کو بطريق احسن انجام ديا ہے اور اب آپ اِس منزل پر آ پہنچے ہيں کہ جہادِ اکبر کو اچھي طرح انجام دے سکيں-
الحمد للہ آج ہمارے نوجوان، مومن، حزب اللّٰہي اور بہترين نوجوان ہيں لہٰذا اِس نعمت کي قدر کرني چاہيے- دشمن چاہتا ہے کہ تمام مسلمان اقوام سے يہ نعمت چھين لے اور اُس کي خواہش ہے کہ مسلمان قوميں؛ عياشي، ذلت و رسوائي اور غفلت کا شکار ہوجائيں، برائيوں اور گناہوں کا دريا اُنہيں اپنے اندر غرق کر دے اور بيروني طاقتيں اُن پر اپنا تسلط جما ليں جيسا کہ انقلاب سے قبل ہمارے يہي حالات تھے اور آج بھي دنيا کے بہت سے ممالک ميں يہي کچھ ہورہا ہے-
دوسرا عامل: عالم اسلام کے مستقبل سے اہل حق کي بے اعتنائي
دوسرا عامل و سبب کہ جس کي وجہ سے يہ حالات پيش آئے اور جسے انسان آئمہ طاہرين کي زندگي ميں بھي مشاہدہ کرتا ہے،وہ يہ تھا کہ اہل حق نے جو ولايت و تشيع کي بنياد تصور کيے جاتے تھے ، دنيائے اسلام کي سرنوشت و مستقبل سے بے اعتنائي برتي، اِس سے غافل ہوئے اور اِس مسئلے کي اہميت کو دل و دماغ سے نکال ديا- بعض افراد نے کچھ ايام کيلئے تھوڑي بہت بہادري اور جوش و خروش کا مظاہرہ کيا کہ جس پر حکام وقت نے سخت گيري سے کام ليا- مثلاً يزيد کے دور حکومت ميں مدينۃ النبي پر حملہ ہوا، جس پر اہلِ مدينہ نے يزيد کے خلاف آواز اٹھائي تويزيد نے اِن لوگوں کو سرکوب کرنے کيلئے ايک ظالم شخص کو بھيجاکہ جس نے مدينہ ميں قتل عام کيا،نتيجے ميں اِن تمام افراد نے حالات سے سمجھوتہ کرليا اور ہر قسم کي مزاحمتي تحريک کو روک کربگڑتے ہو ئے اجتماعي مسائل سے اپني آنکھيں بند کرليں- البتہ اِن افراد ميں سب اہل مدينہ شامل نہيں ہيں بلکہ تھوڑے بہت ايسے افرادبھي تھے کہ جن کے درميان خود اختلاف تھا- يزيد کے خلاف مدينے ميں اٹھنے والي تحريک ميں اسلامي تعليمات کے برخلاف عمل کيا گيا، يعني نہ اُن ميں اتحاد تھا، نہ اُن کے کام منظم تھے اور نہ ہي يہ گروہ اور طاقتيں آپس ميں مکمل طورپرايک دوسرے سے مربوط و متصل تھيں- جس کا نتيجہ يہ نکلا کہ دشمن نے بے رحمي اورنہايت سختي کے ساتھ ِاس تحريک کا سرکچل ديا اور پہلے ہي حملے ميں اِن کي ہمتيں جواب دے گئيں اور اُنہوں نے عقب نشيني کرلي؛ يہ بہت اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے-
آپس ميں مقابلہ کرنے اور ايک دوسرے کو نقصان پہنچانے والي حق و باطل کي طاقتوں کي جد و جہد بہت واضح سي بات ہے، جس طرح حق ،باطل کو ختم کرنا چاہتا ہے اُسي طرح باطل بھي حق کي نابودي کيلئے کوشاںرہتا ہے- يہ حملے ہوتے رہتے ہيں اور قسمت کا فيصلہ اُس وقت ہوتا ہے کہ جب اِن طاقتوں ميں سے کوئي ايک تھک جائے اور جو بھي پہلے کمزور پڑے گا تو شکست اُس کا مقدر بنے گي-
بشکريہ اسلام ان اردو ڈاٹ کام
پيشکش شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
واقعہ کربلا سے حاصل ہونے والي عبرتيں (حصّہ دوّم )