واقعہ کربلا سے حاصل ہونے والي عبرتيں (حصّہ سوّم )
1- اصلي عامل؛معاشرتي سطح پر پھيلنے والي گمراہي اور انحراف
اگر ايک معاشرے ميں ايک بيماري موجود ہو تو وہ بيماري اُس معاشرے کوکہ جس کے حاکم پيغمبر اکرم (ص) اور امير المومنين جيسي ہستياںہيں، صرف چند دہائيوں ميں اُن خاص حالات سے دوچار کردے تو سمجھنا ليناچاہيے کہ يہ بيماري بہت ہي خطرناک ہے، لہٰذا ہميں بھي اس بيماري سے ڈرنا اور خوف کھانا چاہيے-
امام خميني2 جو خود کو پيغمبر اکرم (ص) کے شاگردوں ميں سے ايک ادنيٰ شاگرد سمجھتے تھے ، اُن کيلئے يہ با ت باعث فخر تھي کہ وہ پيغمبر اکرم (ص) کے احکامات کا ادراک کريں، اُن پر عمل کريں اور اُن کي تبليغ کريں- امام خميني کجا اور حضرت ختمي مرتبت (ص) کجا! اُس معاشرے کے موسس و باني خود پيغمبر اکرم (ص) تھے کہ جو آپ (ص) کے وصال کے چند سالوں بعد ہي اس بيماري ميں مبتلا ہوگيا تھا- ہمارے معاشرے کو بہت ہوشيار رہنے کي ضرورت ہے کہ وہ کہيں اُس بيماري ميں مبتلا نہ ہوجائے، يہ ہے عبرت کا مقام! ہميں چاہيے کہ اُس بيماري کو پہچانيں (کہ اُس کي کيا علامات ہيں، اُس کے نتائج کيا ہيں اور بيمار بدن آخر ميں کس حالت سے دوچار ہوتا ہے) اور اس سے دوري و اجتناب کريں -
ميري نظر ميں کربلا کا يہ پيغام، کربلا کے دوسرے پيغاموں اور درسوں سے زيادہ آج ہمارے ليے سب سے زيادہ ضروري ہے- ہميں اُن علل و اسباب کو تلاش کرنا چاہيے کہ جس کي وجہ سے اُس معاشرے پر ايسي بلا نازل ہوئي تھي کہ دنيائے اسلام کي عظيم ترين شخصيت اور خليفہ مسلمين حضرت علي ابن ابيطالب کے فرزند حسين ابن علي کے بريدہ سر کو اُسي شہر ميں کہ جہاں اُن کے والد حکومت کرتے تھے، پھرايا جائے اور کوئي بھي صدائے احتجاج بلند نہ کرے! اُسي شہر سے کچھ افراد کربلا جائيں اورنواسہ رسول (ص) اور اُس کے اہل بيت اصحاب کو تشنہ لب شہيد کرديں اور حرم امير المومنين کو قيدي بنائيں!
اس موضوع ميں بہت زيادہ گفتگو کي گنجائش موجود ہے- ميں اس سوال کے جواب ميں صرف ايک آيت قرآن کي تلاوت کروں گا- قرآن نے اس جواب کو اس طرح بيان کيا ہے اور اُس بيماري کو مسلمانوں کيلئے اس انداز سے پيش کيا ہے اور وہ آيت يہ ہے- ’’فَخَلَفَ من بَعدھم خَلف? اَضَاعُوا الصَّلَاۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہوَاتَ فَسَوفَ يَلقَونَ غَيًّا ‘‘ 1 ،’’اور اُن کے بعد ايک ايسي نسل آئي کہ جس نے نماز کو ضايع کيا اور شہوات و خواہشات کي پيروي کي تو يہ لوگ بہت جلد اپني گمراہي کا نتيجہ ديکھيں گے‘‘-
گمراہي اور انحراف کي اصل وجہ؛
ذکرخدا ا ور معنويت سے دوري اور خواہشات کي پيروي
اس گمراہي اورعمومي سطح کے انحراف کے دوعامل اور عنصر ہيں؛ ايک ذکر خد سے دوري کہ جس کا مظہر نماز ہے، يعني خدا اور معنويت کو فراموش کرنا، معنويت و روحانيت کو زندگي سے نکال دينا، خدا کي طرف توجہ، ذکر ، دعا وتوسل ، خدا کي بارگاہ ميں طلب و تضرّع و زاري، توکّل اور خدائي حساب کتاب کو زندگي سے باہر نکال پھينکنا اور دوسرا عنصر ’’وَاتَّبَعُوا الشَّہوَاتَ ‘‘ شہوت راني کے پيچھے جانا ، ہوا و ہوس اور خواہشات کي پيروي يا با الفاظ ديگر دنيا طلبي، مال وثروت کي جمع آوري کي فکر ميں پڑنا اور لذات دنيوي سے لُطف اندو زہو کرخدا و قيامت کو فراموش کر دينا اور ان سب امور کو ’’اصل‘‘ جاننا اور ہدف و مقصد کو فراموش کردينا-
اصلي اور بنيادي درد: ہدف کے حصول کي تڑپ کا دل سے نکل جانا
يہ ہے اُس معاشرے کا بنيادي اور اصلي درد و تکليف ؛ ممکن ہے ہم بھي اس درد و بيماري ميں مبتلا ہوجائيں-
اگر ہدف کے حصول کي لگن و تڑپ اسلامي معاشرے سے ختم ہوجائے يا ضعيف ہوجائے ،اگر ہم ميں سے ہر شخص کي فکر يہ ہو کہ وہ اپنا اُلّو سيدھا کرے، ہم دنيا کي دوڑ ميں دوسروں سے کہيں عقب نہ رہ جائيں، دوسروں نے اپني جيبوں کو بھرا ہے اور ہم بھي دونوں ہاتھ پھيلا پھيلا کر جمع کريں گے جب معاشرے کے افراد اپنے انفرادي مفادات کو اجتماعي مفادات پر ترجيح ديں توظاہر سي بات ہے کہ اس قسم کي تاويلات سے معاشرہ اجتماعي سطح پر اس قسم کي بلاوں سے دُچار ہوگا-
اسلامي نظام، عميق ايمانوں ، بلند ہمتوں ، آہني عزموں ، بلند و بالا اہداف کي رہائي کيلئے با مقصد شعَاروں کو بيان کرنے اور اُنہيں اہميت دينے اور زندہ رکھنے سے وجود ميں آتا ہے، انہي امور کے ذريعہ اُس کي حفاظت کي جاتي ہے اوروہ اسي راہ کے ذريعہ ترقي و پيش رفت کرتا ہے- ان شعَاروں کو کم رنگ کرنے، اُنہيں کم اہميت شمار کرنے، انقلاب و اسلام کے اصول و قوانين سے بے اعتنائي برتنے اور تمام امور اور چيزوں کو مادّيت کي نگاہ سے ديکھنے اور سمجھنے کے نتيجے ميں معلوم ہے کہ معاشرہ ايسے مقام پر جا پہنچے گا کہ اُس کي اجتماعي صورتحال يہي ہوگي-اوائل اسلام ميں بھي معاشرہ اسي حالت سے دوچار تھا-
بشکريہ اسلام ان اردو ڈاٹ کام
پيشکش شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
خيموں کي حالت