کھيل کود (چوتھا حصّہ)
باعث افسوس ہے کہ سرپرست حضرات نہ فقط يہ کہ اس امر کے بارے ميں نہيں سوچتے بلکہ دانستہ يا نا دانستہ ايسے کھيلوں کى بہت زيادہ ترويج کررہے ہيں اور بچوں اور نوجوانوں کو حدّ سے زيادہ ان ميں مصروف کر رہے ہيں اے کاش اسکولوں اور کالجوں کے سمجھدار اور ذمہ سرپرست اس بارے ميں کوئي چارہ کار سوچتے اور ہمدرد ماہرين کے ذريعے فائدہ مند اجتماعى کھيلوں کو رواج ديتے جو ايسے مذکورہ کھيلوں کى جگہ لے سکتے
اس سلسلہ بحث کے آخر پر اس نکتے کا ذکر بھى پر اس نکتے کا ذکر کر بھى ضرورى ہے کہ بچھ کو اگر چہ کھيل کى ضرورت ہے اور يہ اس کے ليے ضرورى ہے ليکن کھيل کے اوقات محدود ہونے چاہئيں ايک سمجھدار اور با شعور مرّبى بچے کے کھيل کے اوقات اس طرح سے مرتب کرتا ہے کہ بچہ خود بخود اجتماعى اور سودمند پيدا وارى سرگرميوں کى طرف مائل ہو جاتا ہے يوں زندگى کے دوسے مرحلے ميں کھيل کو چھوڑ کر حقيقى اور سودمند کام انجام دينے لگتا ہے ايسا مربى اس امر کى اجازت نہيں ديتا کہ بچے کا مزاج ہى کھيل کودکا بن جائے اور اس کا کمال يہى کھيل کود بن جائے او ر وہ اس بات پر فخر کرنے لگے کہ ميں بہترين کھلاڑى ہوں
حضرت على عليہ السلام نے فرمايا :
جو کھيل کارہيا ہو گا کامياب نہ ہو سکے گا
رسل اس کے متعلق لکھتا ہے
يہ نظريہ کہ کسى انسان کى شخصيّت کا معيار کھيل ميں اس کا سابقہ ہے ، ہمارے سماجى عجزو تنزل کى علامت ہے کہ ہم يہ بات نہيں سنجھ سکے کہ ايک جديد اور پيچيدہ دنيا ميں رہنے کے ليے معرفت اور تفکر کى ضرورت ہے اجتماعى کھيلوں کى ايک مشکل يہ ہے کہ ان سے بچوں ميں کدورت اور لڑائي جھگڑا پيدا ہو جاتا ہے اکٹھے کھينے والے بچے کبھى ايک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے بھى ہيں
ايسے موقع پر سرپرست حضرات کى ذمہ دارى ہے کہ فورا دخالت کريں اور ان ميں صلح و محبت پيدا کرکے انہيں کھيل ميں مشغول کرديں يہ کام اتنا مشکل بھى نہيں ہے کيونکہ ابھى تک عناد اور دشمنى بچوں کے دل ميں جڑ پيدا نہيں کرچکى ہوتى اس ليے وہ بہت جلد ايک دوسرے سے پھر گھل مل جاتے ہيں بد قسمتى سے بعض اوقات بچوں کا جھگڑا بڑوں ميں سرايت کرجاتا ہے اور وہ کہ جو عقل مند ہيں ايک دوسرے کے مقابل کھڑ ے ہو جاتے ہيں پھرماں باپ بغير تحقيق کے اور کى بات سمجھے بغيراپنے بچے کا دفاع شروع کرديتے ہيں اور يہ امر کبھى لڑائي جھگڑا مار پيٹ يہاں تک کہ کبھى تھا نے تک جاپہنچتا ہے جب کہ ايسا کرنے سے بچوں کى غلط تربيت ہوتى ہے اور يہ بچے پر بہت بڑا ظلم ہے جو بچے ايسے واقعے کو ديکھتا ہے سو چتا ہے کہ جق و حقيقت کى کوئي اہميّت نہ ديں اور کسى کو حق سے سرو کاو نہيں اور ہر ماں باپ تعصب کى بنا پر اپنے بچے کا دفاع کررہے ہيں اس طرح کا بچہ بے جا تعصب اور حق کشى کا عملى سبق اپنے ماں باپ سے ليتا ہے اور کل کے معاشر ے ميں اس سے کام ليتا ہے
بشکريہ : مکارم شيرازي ڈاٹ او آر جي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان