سورۂ حمد کي آيت نمبر 1 کي تفسير
ہميں معلوم ہے آج کي ترقي يافتہ صنعتي دنيا ميں، جو وسيلے يا مشيني ساز و سامان ايجاد ہوتے ہيں ان کي تخليق و ايجاد کرنے والے افراد يا کمپنياں ان کے ساتھ ہي اپنے خريداروں کو ان چيزوں سے استفادہ کے لئے ايک تعارفي بک لٹ يا رسالہ بھي ديتي ہيں جس ميں اس سامان کي ساخت، کل پرزے اور طريقۂ استعمال و غيرہ کي تفصيل بيان کرديتے ہيں تا کہ لوگ استفادے سے پہلے اس چيز کي حقيقت و ماہيت سے آشنائي پيدا کرليں اور اس سے صحيح طور پر فائدہ اٹھائيں خود اس چيز کو يا اپنے آپ کو ضرر و نقصان نہ پہنچائيں اور وہ چيز جلدي خراب نہ ہو-چنانچہ ہم اور آپ بھي دنيا کي دوسري تمام مخلوقات اور تمام ايجادات و اختراعات کي مانند ايک مخلوق ہيں ہمارا اور آپ کا بھي ايک خالق ہے ہمارا اور آپ کا بھي ايک رازق و پروردگار ہے اور اتفاق سے ہم اور آپ بھي ايک ايسي عجيب و غريب انوکھي اور ترقي يافتہ ترين مخلوق ہيں کہ اس ترقي يافتہ زمانہ ميں بھي " انسان" جيسي مخلوق کا مثل و نظير پيش کرنا ناممکنات ميں سے ہے ہم خالق ہستي کے قوي و توانا ارادے اور فيصلے کا نتيجہ ہيں اور ہم کو اپني محدود عقل و فکر اور تخليقي کمزوريوں اور ناتوانيوں نيز خود اپنے جسم و روح کي بے پناہ پيچيدگيوں کے باعث اپني حقيقت کا بہ تمام و کمال علم و ادراک نہيں ہے اور خود اپنے کمال و ارتقا کي حدوں کو سمجھنے اور فلاح و نجات کي راہوں کو اپنے آپ طے کرنے سے قاصر ہيں اور يہ ايک کھلي حقيقت ہے کہ ہمارا وجود، کسي مشين، فرج اور ٹيلي ويژن و غيرہ سے کمتر اور معمولي شمار کرنے کے قابل ہرگز نہيں ہے کہ ان کا بنانے والا اپني ايجاد و اختراع کے ساتھ ان کي تعارفي بک لٹ ساتھ رکھنا ضروري سمجھے اور ہمارے خالق نے خود ہمارے لئے کوئي رہنما کتاب نہ لکھي ار نہ بھيجي ہو؟ !اولا" ہم انسانوں کو خود اپني حيات و نجات کےلئے کيا کسي رہنما کتاب کي ضرورت نہيں ہے ؟ ايک ايسي کتاب کہ جس ميں ہماري جسماني اور روحاني خصوصيات و ضروريات کا ذکر ہو؟! ايک ايسي کتاب کہ جس ميں انسان کے اندر پوشيدہ قوتوں اور صلاحيتوں کي تفصيل اور ان سے صحيح استفادہ کا طريقہ بيان کيا گيا ہو؟!اور اس سے بھي زيادہ اہم يہ کہ انساني جسم و روح کے لئے کيا چيزيں نقصان دہ ہيں اور انساني وجود کو کيا خطرات درپيش ہيں ان کا جاننا کيا ايک انسان کے لئے ضروري نہيں ہے ؟تو کيا کسي ايسي الہي کتاب کا نزول لازم نظر نہيں آتا کہ جسميں انسان کي ہلاکت و بدبختي کے راز و رموز سے پردہ اٹھايا گيا ہو؟!کيا يہ بات قبول کي جا سکتي ہے وہ خدا کہ جس نے ہم کو علم و رحمت اور محبت و رافت کي بنياد پر خلق کيا ہے ہم کو اس دنيا ميں يونہي چھوڑدے گا اور فلاح و کامراني کي راہ کي طرف ہماري رہنمائي کا کوئي انتظام نہيں کرے گا؟!قرآن ان ہي تمام سوالوں کا جواب ہے اور يہ تورات و زبور و انجيل کے بعد وہ آخري کتاب ہے جو خداوند عالم نے انسان کي رہنمائي کے لئے بھيجي ہے اور اس نے عالم بشريت کو اس کتاب کے ذريعے اس کي فلاح و کامراني کے ساتھ ہي ساتھ اس کي ہلاکت و بدبختي کا باعث بن جانے والي تمام اچھي اور بري راہوں کي واضح نشان دہي کردي ہے -جي ہاں! خداوند عليم نے تمام خانداني اور معاشرتي تعلقات کے صحيح و مناسب اصول و دستور قانوني اور اخلاقي مسائل، جسماني اور روحاني ضروريات ،انفرادي اور اجتماعي فرائض انساني معاشروں کے صحيح و غلط رسم و رواج ، معاشي اور اقتصادي قوانين و ضوابط اور اسي طرح کے دوسرے وہ تمام موضوعات جو کسي بھي ملک و معاشرے اور شہر و ديہات ميں تنہا يا اہل و خاندان کے ساتھ زندگي بسر کرنے والوں کےاچھے برے سے تعلق رکھتے ہيں قرآن حکيم ميں بيان کردئے ہيں-اگرچہ قرآن مجيد ميں ہم ديکھتے ہيں کہ تاريخ بشريت ميں پيش آنے والے مختلف قوموں اور قبيلوں کے قصے، مختلف جنگوں اور مقابلہ آرائيوں کي داستانيں گزشتہ مردوں اور عورتوں کي زندگيوں سے وابستہ اچھے برے کردار بيان ہوئے ہيں ليکن ان سب کے باوجود يہ کوئي قصے اور کہاني کي کتاب نہيں ہے بلکہ ہر دور اور ہرزمانے کے تمام انسانوں کے لئے حتي عصرحاضر کي ترقي يافتہ نسلوں کے لئے بھي سبق اور عبرت و نصيحت کي کتاب ہے-چنانچہ خداوند عالم نے اس کتاب کو قرآن مبين کا نام اسي لئے ديا ہے کہ يہ قرآن يعني " پڑھي جانے والي کتاب" ہے اس کو پڑھنا چاہئے ليکن کسي پرائمري اسکول کے بچوں کي طرح صرف زبان سے پڑھ لينا کافي نہيں ہے بلکہ غور و فکر کے ساتھ پڑھنا چاہئے جيسا کہ خود قرآن نے اپنے تمام پڑھنے والوں کو تدبر و تفکر کي دعوت دي ہے -عزيزان محترم! جيسا کہ آپ کے علم ميں ہے يہ قرآن ايک سو چودہ سوروں اور ہر سورہ چند آيات پر مشتمل ہے اور تمام سوروں اور آيتوں کي تقسيم بندي خدا کے حکم کے مطابق خود مرسل اعظم حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ و آلہ و سلّم کي نگراني ميں انجام پائي ہے اور يہ کتاب اسي لئے ہر طرح کي کمي و زيادتي يا تحريف سے پوري طرح محفوظ و مامون ہے اور تعصب آميز الزامات و اتہامات سے قطع نظر اس بات پر پورا عالم اسلام متفق ہے کہ اس کتاب ميں دوسري آسماني کتابوں کي نسبت کسي بھي قسم کي تحريف نہيں ہوئي ہے -اور اب اس مختصر تمہيد کے بعد ہم اپني اصلي گفتگو شروع کرتے ہيں : عزيزو! دوسري بہت سي کتابوں کي طرح قرآن کريم کا سب سے پہلا سورہ ، سورۂ حمد " فاتحۃ الکتاب " يعني " قرآن کا آغاز يا مقدمہ " کہا گيا ہے اور چونکہ يہ پورا سورہ جو مکي ہے، صرف سات آيات پر مشتمل ہے اس کو " سبع المثاني" بھي کہتے ہيں اور اس نام کي ايک وجہ يہ بھي ذکر ہوئي ہے کہ اس سورہ کي سات آيتيں روزانہ پنج وقتہ نمازوں ميں دو مرتبہ پڑھنا واجب ہے اس لئے اس کو " سبع المثاني" کہتے ہيں اور اسي سے اس سورے کي اہميت کا اندازہ لگايا جا سکتا ہے کہ يہ سورہ ہر مسلمان نمازي روزانہ دس مرتبہ پڑھتا ہے اور اس سورہ کو پڑھے بغير نماز باطل ہوجاتي ہے اور اس سورہ کو " امّ القرآن" بھي کہتے ہيں ، يہاں ايک قابل توجہ نکتہ يہ ہے کہ خدا کي کتاب جو اس سورہ سے شروع ہوئي ہے اس کا اسي آيت سے آغاز ہوا ہے کہ جس کے لئے روايات ميں آيا ہے کہ ہر وہ کام جو اس آيت سے شروع نہ کيا جائے اپنے نيک انجام کو نہيں پہنچتا - چنانچہ " بسم اللہ " ميں برکت بھي ہے اور تکميل کار کي ضمانت بھي، ظاہر ہے جو کام نام خدا سے شروع ہوگا وہ جرم و گناہ سے دور رہے گا کيونکہ حرام کام نام خدا ليکر انجام دنيا کوئي مفہوم نہيں رکھتا -سورۂ " حمد" کي پہلي آيت ميں خدا فرماتا ہے : بسم اللہ الرحمن الرحيم يعني ميں ( شروع کرتا ہوں ) اللہ کے نام سے جو بڑا بخشنے والا مہربان ہے -زمانۂ قديم ميں بھي لوگوں کا يہ طريقہ رہا ہے کہ وہ برکت کےلئے اپنے اہم کام اپنے بزرگوں کے نام و ياد سے شروع کيا کرتے تھے حتي کفار و مشرکين بھي اپنے مخصوص بتوں اور معبودوں کے نام سے ياان کے ناموں پر قرباني کےذريعے برکت طلب کرتےتھےظاہر ہے دنيا کے ہرعظيم سے عظيم تر خدا کي ذات ہے اسي نے ہر ذي حيات کو وجود عطا کيا ہے اس لئے کتاب ہستي کا آغاز بھي اسي سے ہے اور کتاب شريعت و ايمان يعني قرآن حکيم بھي خدائے رحمن و رحيم کے نام سے شروع ہوئي ہے اور اسلام نے نہ صرف يہ کہ قرآن کي تلاوت بلکہ کھانا پينا اٹھنا بيٹھنا ، سونا اور کاروبار ميں مشغول ہونا سير و سفر کرنا يا تعليم و تدريس کرنا تبليغ يا موعظت و نصيحت کرنا غرض کہ ہر کام سے پہلے " بسم اللہ" کا حکم ديا ہے حتي اگر جانوروں کو ذبح کرتے وقت خدا کا نام نہ ليں تو گوشت کھانا جائز نہيں ہے البتہ يہ " بسم اللہ " کہنا اسلام اور مسلمانوں سے مخصوص نہيں ہے بلکہ خود قرآن حکيم کے مطابق حضرت نوح (ع) کي کشتي "بسم اللہ " کے ذريعہ حرکت ميں آئي تھي اور حضرت سليمان عليہ السلام نے ملکۂ سبا بلقيس کے نام اپنا خط بسم اللہ سے ہي شروع کيا تھا-" بسم اللہ الرحمن الرحيم" کے سلسلے ميں مختلف اقوال ہيں ايک قول کے مطابق يہ قرآن کے ہر سورے کي ايک مستقل آيت ہے يا سورۂ برائت کے علاوہ ہر سورہ کي پہلي آيت کا حصہ ہے ، يا پھر صرف سورۂ حمد اور سورۂ نمل کي ايک آيت ہے بقيہ سوروں ميں فاصل يا آغاز سورہ کے عنوان سے ہے -چنانچہ تعليمات محمد و آل محمد عليہم السلام کي روشني ميں، جس پر مکہ اور کوفہ کے قرّا بھي اتفاق نظر رکھتے ہيں يہ سورۂ فاتحہ سميت ہر سورہ کي ايک مکمل آيت ہے کيونکہ اہلبيت عليہم السلام نے ان لوگوں سے ناراضگي کا اظہار کيا ہے جو نماز ميں اس کو نہيں پڑھتے يا آہستہ پڑھا کرتے تھے اور خود بھي تمام نمازوں ميں بلند آواز سے ہي پڑھا کرتے تھے-بہرحال اس آيت سے ہميں سبق ملتا ہے کہ : " بسم اللہ" يعني خدا کے نام سے اپنے کاموں کا آغاز برکت ، تکميل کي ضمانت اور خدا پر توکل اور طلب استعانت کي نشاني ہے - " بسم اللہ" کہنے والا اپنے ہر کام کو الہي رنگ عطا کرديتا ہے اور انسان شرک و ريا کي آفتوں سے محفوظ ہوجاتا ہے - " بسم اللہ " کا مطلب ہے خدايا ہم نے تجھے اپنے کام ميں فراموش نہيں کيا ہے - اے ميرے معبود! تو بھي ہميں ہمارے کام ميں فراموش نہ کرنا - " بسم اللہ " يعني ہم نے اپنا کام خداوند عظيم کي قدرت لايزال کے حوالے کرديا ہے جو رحمن و رحيم بھي ہے اور ہمارے حق ميں وہي فيصلہ کرے گا جو ہمارے لئے بہتر اور فائدہ مند ہو-
بشکريہ آئي آر آئي بي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان