بصيرت قائد شھيد علامہ عارف حُسين الحسيني
شہيد قائد نے ضياءالحق کي آمريکي جي حضوري کي بناء پر آخري دم تک اسکي بار بار کي ملاقات کي خواہش کے باوجود اس سے ملاقات نہ کي اور کھلم کھلا اسکي اسلام دوستي کي مکارانہ سازش سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہے آخر کار حکومت نے اعلان کر ديا ہے کہ ہم اسلامي نظام کے نفاذ ميں ناکام ہو چکے ہيں- اب يہاں پر ہم کيا کريں؟ يا تو ہم يہ کہتے ہيں کہ چونکہ حکومت نے جب اسلامي نظام کا نعرہ بلند کيا تو پھر اس کے مقابلے ميں ہم اپنے مطالبات کے لئے کام کرتے رہيں ليکن حکومت نے اپنے اسلامي نظام سے دستبردار ہونے کا اعلان کيا ہے تو کيا ہم بھي فقہ جعفريہ کے مطالبات سے دستبردار ہو جائيں؟ نہيں ايسا کبھي نہيں ہو سکتا- جو سفر قوم کے جوانوںنے علماءکي قيادت ميں شروع کيا تھا ( مخصوصاً مفتي جعفر حسين صاحب کہ جنہوں نے اپني ضعيف عمري ميں اس تحريک کي داغ بيل ڈالي) اس سفر کو ہم روک ليں يا پيچھے کي طرف واپس کر ديں- نہيں! ايسا نہيں ہو گا ہم نے احساس کيا ہے کہ اب ہماري ذمہ داري اور زيادہ بڑھ گئي ہے اگر پہلے ہماري ذمہ داري صرف شيعوں کے لئے فقہ جعفريہ کے نفاذ کا مطالبہ تھا تو آج اس سے بڑھ کر جہاں ہم شيعوں کے لئے فقہ جعفريہ کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہيں تو وہاں ہم پورے ملک ميں اسلامي نظام کا مطالبہ کريں گے اور اسلامي نظام کے لئے جد و جہد کريں گے-
يہ سنت الہٰي ہے جب کسي قوم ميں کوئي عظيم شخصيت اُبھر کے سامنے آتي ہے اگرافراد اس کي صلاحيتوںسے استفادہ کريں تو خدااُنہيں عظيم انقلابات اورعظيم کاميابيوںسے نوازتا ہے ليکن اگراُن سے بے اعتنائي برتيں تو پھر خدا ايسے افراد سے عظيم شخصيات کو چھين ليتا ہے اور ايسے لوگ بني اسرائيل کي طرح خدائي نعمتوں سے محروم ہو کرسختيوں ميں گھر جاتے ہيں-
قائد شہيد کے بارے ميں ہميں اپنے اعمال اور موجودہ حالات کے مناظر ميںديکھنا چاہيے کہ وہ کيا تھے؟ کيا چاہتے تھے؟ ہم نے کيا کيا؟ اور آج کس مقام پر ہيں؟ آيا واپسي کي کوئي اميد ہے يا ہمارے اعمال اتنے قبيح ہيں کہ ہر طرف اب تاريکي ہي تاريکي ہے؟
قائد شہيد کي نہ صرف تمام پاليسياں، منشور اور منصوبے بلکہ آپ کي کام کرنے کي روش اور طريقہ کار بھي واضح ہے- آپ نے جن مشکل حالات ميں کام کيا اور مصائب کے جو سمندر پار کئے وہ سب حالات و واقعات ہم سب پر عياں ہيں ليکن اس کے باوجود ہم لوگ قائد شہيد کے راستے سے بہت دور کھڑے ہيں- آج قائد شہيد کو ہم سے جدا ہوئے 20 برس ہو چکے ہيں- ان 20 برسوں ميں ايک اور نسل جوان ہو چکي ہے جسے اگر افکار قائد پر جمع نہ کيا گيا تو ہمارا بکھرا ہوا شيرازہ پھر کبھي جمع نہ ہو سکے گا- شايد اسي لئے حضرت امام خميني نے بھي ہميں افکارِ شہيد کو زندہ رکھنے کي تاکيد کي تھي-افکارِ شہيد کو زندہ رکھنے کا حقيقي راستہ صرف اور صرف يہي ہے کہ قائد شہيد کي بصيرت کا مکمل يا کچھ نہ کچھ پر تو ہماري زندگيوںميں عملي طور پر نظر آئے-
بشکريہ : اردو ڈاٹ فورٹین سٹارز
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان