ايک اھم مطلب کے لئے خداوند عالم کا فرمان
ميں اپنے لئے بندگي اور اس کے لئے ربوبيت کا اقرار کرتا هوں اوراپنے لئے اس کي ربوبيت کي گواھي ديتا هوں اس کے پيغام وحي کو پہنچانا چاہتا هوں کھيں ايسا نہ هوکہ کوتاھي کي شکل ميں وہ عذاب نازل هوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئي نہ هواگر چہ بڑي تدبير سے کام ليا جائے اور اس کي دوستي خالص ھے- اس خدائے وحدہ لا شريک نے مجھے بتايا کہ اگر ميں نے اس پيغام کو نہ پہنچايا جو اس نے علي کے متعلق مجھ پرنازل فرمايا ھے تو اس کي رسالت کي تبليغ نھيں کي اور اس نے ميرے لئے لوگوں کے شر سے حفاظت کي ضمانت لي ھے اور خدا ھمارے لئے کافي اور بہت زيادہ کرم کرنے والا ھے -
اس خدائے کريم نے يہ حکم ديا ھے :<بسم الله الرَّحْمٰن الرَّحيم، يٰااَيُّھَاالرَّسُوْلُ بَلغْ مٰااُنزلَ الَيکَ منْ رَبکَ( في عَليٍّ يَعْني في الْخلاٰفَةلعَلي بْن اَبي طٰالبٍ) وَانْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰابَلَّغْتَ رسٰالَتَہُ وَاللهُ يَعْصمُکَ منَ النّٰاس>
”اے رسول! جو حکم تمھاري طرف علي (ع) (يعني علي بن ابي طالب کي خلافت ) کے بارے ميں نازل کيا گيا ھے، اسے پہنچادو، اور اگر تم نے ايسا نہ کيا تو رسالت کي تبليغ نھيں کي اور الله تمھيں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا “
ايھا الناس! ميں نے حکم کي تعميل ميں کوئي کوتا ھي نھيں کي اور ميں اس آيت کے نازل هونے کا سبب واضح کر دينا چاہتا هوں :
جبرئيل تين بار ميرے پاس خداوند سلام پروردگار(کہ وہ سلام ھے ) کا يہ حکم لے کر نازل هوئے کہ ميں اسي مقام پر ٹھھر کر سفيد و سياہ کو يہ اطلاع دے دوں کہ علي بن ابي طالب (ع) ميرے بھائي، وصي، جانشين اور ميرے بعد امام ھيں ان کي منزل ميرے لئے ويسي ھي ھے جيسے موسيٰ کے لئے ھارون کي تھي - فرق صرف يہ ھے کہ ميرے بعد کوئي نبي نہ هوگا، وہ اللہ و رسول کے بعد تمھارے حاکم ھيں اور اس سلسلہ ميں خدا نے اپني کتاب ميں مجھ پر يہ آيت نازل کي ھے :
<انَّمٰاوَليُّکُمُ اللهُ وَرَسُوْلُہُ وَالَّذيْنَ آمَنُوْاالَّذيْنَ يُقيْمُوْنَ الصَّلاٰةَوَيُوْتُوْنَ الزَّکٰاةَ وَھُمْ رٰاکعُونَ>
”بس تمھارا ولي اللھے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ايمان جو نماز قائم کرتے ھيں اورحالت رکوع ميں زکوٰة ادا کرتے ھيں “علي بن ابي طالب (ع) نے نماز قائم کي ھے اور حالت رکوع ميں زکوٰة دي ھے وہ ھر حال ميں رضا ء الٰھي کے طلب گار ھيں-
ميں نے جبرئيل کے ذريعہ خدا سے يہ گذارش کي کہ مجھے اس وقت تمھارے سامنے اس پيغام کو پہنچانے سے معذور رکھا جائے اس لئے کہ ميں متقين کي قلت اور منافقين کي کثرت ، فساد برپاکرنے والے ، ملامت کرنے والے اور اسلام کا مذاق اڑانے والے منافقين کي مکاريوں سے با خبر هوں ، جن کے بارے ميں خدا نے صاف کہہ ديا ھے کہ”يہ اپني زبانوں سے وہ کہتے ھيں جو ان کے دل ميں نھيں ھے ، اور يہ اسے معمولي بات سمجھتے ھيں حالانکہ پروردگار کے نزديک يہ بہت بڑي بات ھے “- اسي طرح منافقين نے بارھا مجھے اذيت پہنچائي ھے يھاں تک کہ وہ مجھے ”اُذُنْ“” ھر بات پر کان دھرنے والا“ کہنے لگے اور ان کا خيال تھا کہ ميں ايسا ھي هوں چونکہ اس (علي ) کے ھميشہ ميرے ساتھ رہنے، اس کي طرف متوجہ رہنے، اور اس کے مجھے قبول کرنے کي وجہ سے يھاں تک کہ خداوند عالم نے اس سلسلہ ميں آيت نازل کي ھے:
<وَمنْھُمُ الَّذيْنَ يُوْذُوْنَ النَّبيَّ وَيَقُوْلُوْنَ ھُوَاُذُنٌ، قُلْ اُذُنُ عَلَي الَّذيْنَ يَزْعَمُوْنَ اَنَّہُ اُذُنٌ-خَيْرٍلَکُمْ، يُومنُ باللّٰہ وَ يُوْمنُ للْمُوْمنيْنَ>
اس مقام پر يہ بات بيان کردينا ضروري ھے کہ ”يُوْمنُ باللّٰہ “اللہ ”باء “ کے ساتھ اور ”يُومنُ للْمُوْمنيْنَ ‘ مو منين ”لام کے ساتھ ان دونوں ميں يہ فرق ھے کہ پھلے کا مطلب تصديق کرنا اور دوسرے کا مطلب تواضع اور احترام کا اظھار کرنا ھے -
”اور ان ميں سے بعض ايسے ھيں جو رسول کو ستاتے ھيں اور کہتے ھيں کہ يہ بس کان ھي (کان) ھيں (اے رسول ) تم کھ دو کہ (کان تو ھيں مگر) تمھاري بھلائي (سننے ) کے کان ھيں کہ خدا پر ايمان رکھتے ھيں اور مو منين ( کي باتوں) کا يقين رکھتے ھيں “
ورنہ ميں چاهوں تو ”اُذُنْ “ کہنے والوں ميں سے ايک ايک کا نام بھي بتا سکتا هوں، اگر ميں چاهوں تو ان کي طرف اشارہ کرسکتا هوں اور اگرچا هوں تو تمام نشانيوں کے ساتھ ان کا تعارف بھي کرا سکتا هوں ، ليکن ميں ان معاملات ميں کرم اور بزرگي سے کام ليتا هوں -
ليکن ان تمام باتوں کے باوجود مرضي خدا يھي ھے کہ ميں اس حکم کي تبليغ کردوں-
اس کے بعد آنحضرت (ص) اس آيت کي تلا وت فرما ئي :
<يٰااَيُّھَاالرَّسُوْلُ بَلغْ مٰااُنزلَ الَيکَ منْ رَبک (فيْ حَق عَليْ ) وَانْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰابَلَّغْتَ رسٰالَتَہُ وَاللهُ يَعْصمُکَ منَ النّٰاس>
”اے رسول!جوحکم تمھاري طرف علي (ع) کے سلسلہ ميں نازل کيا گيا ھے، اسے پہنچادو، اوراگر تم نے ايسا نہ کيا تور سالت کي تبليغ نھيں کي اور الله تمھيں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
دوسري صدي ھجري کے دوران شيعوں کي حالت
اسلام اور ہر زمانے کي حقيقي ضرورتيں ( حصّہ ششم )
اسلام اور ہر زمانے کي حقيقي ضرورتيں ( حصّہ پنجم )
اسلام اور ہر زمانے کي حقيقي ضرورتيں ( حصّہ چہارم )
اسلام اور ہر زمانے کي حقيقي ضرورتيں (حصّہ سوّم )