غير جسمانى سزائيں
بہت سے والدين اپنے بچوں کى تربيت کے ليے غير بدنى سزاؤ ں سے استفادہ کرتے ہيں مثلاً بچے کو کسى اندھيرے کمرے ميں بند کرديتے ہيں يا تہہ خانے ميں بند کرديتے ہيں يا کسى صندوق و غيرہ ميں کبھى اس کو غصّے کے ساتھ گالى بکتے ہيں اس طرح کى وحشيانہ سزاؤ ں کا نقصان بدنى سزاؤ ں اور مارپيٹ سے کم نہيں ہے حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں: ( بہت سى سزائيں ايسى ہوتى ہيں جن کا اثر حملے سے زيادہ ہوتا ہے )
اور ممکن ہے يہ بدنى سزاؤ ں سے بھى زيادہ و نقصان وہ ہوں اس طرح کى سزائيں بچے کى شخصيت کو مجروح کردتى ہيں اور خوف و اضطراب کے عوامل اس ميں پيدا کرديتى ہيں ايسا بہت دفہ ہوا ہے کہ کسى کمرے ميں بند بچے کے اعصاب پر اتنا شديد خوف طارى ہوا ہے جسسے وہ پورى زندگى نجات حاصل نہيں کرسکا کبھى اس خوف کے زير اثر اث پر سکتہ طارى ہوجاتا ہے لہذا والدين کو اس طرح کى سزائيں دينے سے پرہيز کرنا چاہيے بدزبانى اور گالى حرام ہونے کے ساتھ ساتھ بچے کى تربيت پر بھى برے اثرات مرتب کرتى ہيں اور اسے اس برے عمل کا عادى بنا ديتى ہيں ليکن بعض غير جسمانى سزاؤ ں ميں اس طرح کا نقصان نہيں ہے جيسے بچے کے ساتھ ناراض ہوجانا ، اسے سير و تفريح کے ليے نہ لے جانا ، اسے دعوت پر نہ لے جانا اسے ايک وقت کا کھانا نہ دينا اس کے جيب خرچ ميں کمى کردينا اسے کھيلنے سے روک دينا اس کے ذمہ مشکل کام لگادينا يا گھر کے بعض کام اس کے سپرد کردينا اور اسى طرح کى دوسرى سادہ اور بے ضرر قسم کى سزائيں بہت سے والدين اپنے بچوں کى تنبيہ کے ليے اس طرح کى سزائيں ديتے ہيں سکولوں ميں بھى کم و بيشاس طرحکى سزائيں رائج ہيں اس طرح کى سزاؤ ں کا استعمال اگر صحيح اور عاقلانہ طريقے سے کيا جائے تو يہ بچے کى تربيت کے ليے کسى حد تک سودمند ہوتى ہيں اور کسى قسم کا نقصان بھى نہيں رکھتيں سزا ميں يہ ايک عمومى نقص ہے کہ يہ بچے کى باطنى اور اندرونى اصلاح کيلئے مؤثر نہيں ہوتى اور اسميں اصلاح کارجحان پيدا نہيںکرتى سزا کے ڈرسے ممکن ہے وہ کھلے عام اس برے کام کے انجام دينے سے بازرہے ليکن برائي کو وہ جڑے سے نہيں کاٹ پھينکتا بلکہ ظاہرى طور پر وہ اس برائي کے جذبے کو چھپاليتاہے اور پھر يہ جذبہ کسى دوسرى جگہ پر اپنا کام دکھاتا ہے يہ بھى ممکن ہے کہ سزا کسے خوف سے فريب کاري، جھوٹ اور ريا کارى سے کام لے ، ان سزاؤ ں سے بہتر استفادہ کرنے کے ليے چند نکات کى طرف توجہ ضرورى ہے
1سزا سوچ سمجھ کر دينا چاہيے لازمى مقدار سے زيادہ نہيں ہونا چاہيے سزا جرم سے زيادہ نہ ہو کيونکہ بچے نے اگر سزا کو اپنے خلاف ايک جنگ سمجھ ليا تو وہ رد عمل کے طور پر اپنا دفاع کرے گا اور نافرمانى و سرکشى کا مظاہر کرے گا
2سزا اس طريقے سے نہيں ہونى چاہيئے کہ بچہ والدين کو اپنا دشمن سمجھنا شروع کردے يا وہ يہ سوچے کہ والدين مجھ سے محبت نہيں کرتے
3بچے سے اگر غير ارادى طور پر ايک فع سرزد ہوگيا ہے تو اسے سزانہ ديں کيوں کہ اسميں اس کا قصور
نہيں ہے اس کے باوجود اگر اسے سزادى گئي تو يہ اس کے جذبات و احساسات پر منفى اثرات مرتب کرےگى
4سزا کبھى کبھى دينا چاہيے تا کہ اسسے مثبت نتائج حاصل کيے جا سکيں ، کيوں کہ اگر اسے مسلسل سزادى گئي تو وہ اس کا عادى بن جائے گا او ريہ سزا اس پر کسى قسم کا اثر نہيں ڈالے گى حضرت على عليہ السلام نے فرمايا:
ملامت اور سرزنشکى زيادتى ڈہيٹ پن کا باعث بنتى ہے
5کسى انفرادى واقعے ميں بچے کو سزادينى چاہيے نہ کہ کلى طور پر ، تا کہ بچہ سزاکى وجہ سمجھ سکے اور پھر اس کا اعادہ نہ کرے صرف بے نظمى پر بچے کو سزاديں بلکہ ايک خاص مقام پر بدنظمى کى وجہ سے بچے کو سزاديں
6حتى المقدور اس امر کى کوششکرنا چاہيے کہ ايسى سزا کا انتخاب کيا جائے تو بچے کے جرم سے مناسبت رکھتى ہو مثلاً اگر اسے نے رياضى کاکام نہيں کيا تو رياضى کى مشق ہى اس سے سزا کے طورپر حل کرائي جائے نہ يہ کہ اس سے حساب کى کتاب کو اول سے آخر تک لکھنے کى سزاد ے ديں اگراس نے اپنا بستہ اور کپڑے پھينک ديے ہيں تو اسان کو اٹھاکر مرتب طريقے سے رکھنے کا حکم ديا جائے نا يہکہ اسے دعوت پر نہ لے جايا جائے يا اسے گھمانے پھر انے سے محروم کرديا جائے اگى کسى دعوت پر اس نے بدتميزى کا مظاہرہ کيا ہے تو اسے اور دعوت پہ نہ لے کر جائيں نايہ کہ اس کا جيب خرچ کم کرديں اگر اسنے فضول خرچى کى ہے تو اسے جيب خرچ نہ ديں نا يہ کہ اسے سفر پہ نہ لے جائيں اگر اسنے اپنى پنسل يا قلم بے احتياطى کى وجہ سے گم کرديا ہے تو اتنے پيسے ہى اس کے جيب خرچ سے کم کرديئے جائيں
7سزا کے بعد بچے کى غلطى کو بھول جائيں اور دوبارہ اسکا ذکر نہ کريں ايک شخص کہتا ہے ميں نے حضرت موسى بن جعفر عليہ السلام کى خدمت ميں اپنے بيٹے کى شکايت کى تو آپ نے فرمايا:اسے مارو پيٹونہ اس کے ساتھ ناراض ہوجاؤ ليکن تمہارى يہ ناراضگى زيادہ دير تک نہيں رہنى چاہيے
8اگر آپ بچے کو سزا دينا چاہتے ہيں تو اس کا دوسرے بچوں کا ساتھ مقايسہ نہ کريں اور دوسروں کى خوبياں اس کے سامنے بيان نہ کرنے بيٹھ جائيں کيونکہ اس طريقے سے آپ اسے سدھار نہيں سکتے بلکہاس ميں حسد پيدا کرنے کا باعث بن سکتے ہيں ايک صاحب اپنى يادداشتوں ميں لکھتے ہيں:
بچپن ميں ميرے والد مجھے بہت برا بھلا کہتے تھے رشتہ داروں اور ميرے ہم جوليوں کے سامنے ميرى بے عزتى کرديتے اور مجھے ڈانٹتے ڈپٹتے ہميشہ دوسروں کى گن ميرے سامنے گنواتے رہتے اور مجھے حقير سمجھتے رہتے ميرے والد ميرى جتنى بھى بے عزتى کرتے ميں بھى اتنا ہى ڈعيٹ بنتا گيا مجھ ميں سبق پڑھنے کا حوصلہ نہ رہا ميں اپنے آپ کو نا چيز سمجھتا کام اور سبق سے بھاگتا کسى قسم کى ذمہ دارى قبول نہ کرتا ميرے والد کى مسلسل ڈانٹ ڈپٹ نے ميرى شخصيت کو مجروح کرديا اب ميں ايک کام چوراور گوشہ نشين فرو ہوں
بشکريہ : مکارم شيرازي ڈاٹ او آر جي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
غير ملکي چينلوں کے برے اثرات سے بچيں
راستگوئي
آزاد اور پيار بھرے خانداني باہمي تعلقات (حصّہ دوّم)
آزاد اور پيار بھرے خانداني باہمي تعلقات
گھر کى آمدنى اور خرچ