اسلامي حکومت کي تشکيل ميں عطائے الٰہي کي جھلک
ہم سب اس بات کو تسليم کرتے ہيں کہ امير المومنين حضرت علي کي شہادت کے بعد ہم مسلمانوں کي سب سے بڑي تمنا، الٰہي وحي و احکام پر مبني ايک عادلانہ حکومت قائم کرنے کي رہي ہے- صديوں سے ہمارے بزرگ اور آباء و اجداد ايسي حکومت قائم کرنے کي تمنا دل ميں لئے رہے اور ظالم و جابر بادشاہوں اور حاکموں کے زير تسلط گھٹن کي زندگي گزارتے رہے اور وہ اپنے اجتماعي امور کو نافذ نہيں کرسکتے تھے، ايسي صورت ميں ان کو اسلامي حکومت کا وجود فقط دلي ارمان اور ناممکن چيز نظر آتي تھي-
تيرہ سو سال سے زيادہ گزر جانے کے بعد تاريخ کے اس دور ميں ايراني مسلمانوں کے قرآن کريم پر عمل کرنے نيز امام معصوم ـ کے نائب اور ولي فقيہ کي رہبري کو تسليم کرنے کے نتيجہ ميں خداوند متعال نے اپني ايک بہت بڑي نعمت يعني اسلامي حکومت مسلمانوں کو عنايت فرمائي- واضح رہے کہ ہم نواقص کي توجيہ نہيں کرنا چاہتے، بلکہ جو بات يہاں قابل غور ہے وہ يہ ہے کہ اس مقدس نظام و حکومت کا اصل وجود، الٰہي عطاؤ ں اور عنايتوں سے اس مقصد کے تحت ہے کہ الٰہي احکام نافذ ہوں اور انھيں عملي جامہ پہنايا جائے-
انقلاب کے تيس سال گزر جانے کے بعد اب جو بات قابل توجہ ہے کہ جس نے ديني و اخلاقي اقدار کے پاسداروں اورنگہبانوں نيز انقلاب کے دلسوز افراد کي تشويش کو دو گنا کرديا ہے وہ يہ ہے کہ کہيں (خدا نخواستہ) ايسا نہ ہو کہ معاشرہ اپنے ايمان و تقويٰ سے ہاتھ دھو بيٹھے اور دھيرے دھيرے اس کي ديني و انقلابي قدريں پھيکي پڑ جائيںاور نتيجہ ميں اسلام و ايران کے دشمن ثقافتي حملہ اور شبخون مار کے اپنے منصوبوں ميں کامياب ہو جائيں، اور لوگوں کو خصوصاً جوانوں کو ديني و انقلابي اقدار سے جدا کر کے دوبارہ ايران کے مسلمانوں پر تسلط حاصل کرليں-
ممکن ہے يہاں يہ سوال کيا جائے کہ تو پھر اس صورت ميں ہميں کيا کرنا چاہئے کہ جس سے ايک طرف معاشرہ کے ديني و اعتقادي اقدار محفوظ رہيں اور نتيجہ ميں دشمن اپنے منصوبوں ميں ناکام ہوجائے اور دوسري طرف ہم تمام مشکلات پر غالب آ جائيں-
امير المومنين حضرت علي ـ نہج البلاغہ ميں خطبہ 157 کے شروع ميں اسي بات کي طرف توجہ دلاتے ہيں اور فردي و اجتماعي مشکلات کے حل کا راستہ قرآن کي طرف رجوع اور اس کے احکام پر عمل کرنے کو بتاتے ہيں-
اجتماعي مشکلات کا حل قرآن کي پيروي ميں ہے
اس سلسلہ ميں حضرت علي ـ کا کلام، حضرت رسول اسلام (ص) کے نہايت ہي قيمتي ارشاد کي ايک دوسري توضيح ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمايا: ''اِذَا الْتَبَسَتْ عَلَيکُمُ الْفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّيلِ الْمُظْلِمِ فَعَلَيکُمْ بِالْقُرآن'' يعني جب بھي اضطراب و مشکلات، فتنے اور فسادات، اندھيري رات کے ٹکڑوں کے مانند تم پر چھا جائيں اور ان مشکلات کو حل کرنے ميں عاجز ہو جاؤ تو تم پر لازم ہے کہ قرآن کي طرف رجوع کرو اور اس کي نجات بخش ہدايات کو عمل کا معيار قرار دو-
قرآن کريم کے اميد بخش احکام، اميد، مشکلات پر غلبہ، نجات و کاميابي، سعادت اور خوشبختي کي روح کو دلوں ميں زندہ کرتے ہيں اور انسانوں کو ياس و نااميدي کے بھنور سے نکال کر نجات دلاتے ہيں-
واضح ہے کہ ہر کاميابي انسانوں کي خواہش و کوشش کي مرہون منت ہے- اس بنا پر اگر ہم چاہيں کہ اسي طرح اپنے استقلال، اپني آزادي اور اسلامي حکومت کو محفوظ رکھيں اور ہر قسم کي سازش سے خداوند متعال کي پناہ ميں رہيں تو اس کے علاوہ کوئي راستہ نہيں ہے کہ خدا اور قرآن کے نجات بخش احکام کي طرف رجوع کريں اور اس ناشکري اور بے حرمتي کے سبب توبہ کريں جو بعض مغرب زدہ افراد کي طرف سے ديني اقدار کو پامال کرنے کے لئے کي گئي ہيں-
نہايت ہي احمقانہ بات ہے اگر ہم يہ خيال کريں کہ سامراجي طاقتيں کسي چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ ميں بھي جو کہ ايران کي مسلمان قوم کے نفع ميں ہو اور ان کے استعماري منافع کے خلاف ہو، اسلامي جمہوريہء ايران کے ارباب حکومت کا ساتھ ديں گي اور يہ بہت بڑي ناشکري ہے کہ ہم نجات و سعادت کے ضامن اور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ابدي معجزہ قرآن کريم کو چھوڑ ديں اور مشکلات کے حل کے لئے دشمنوں کي طرف دست نياز بڑھائيں، اور ولايت فقيہ جو کہ انبياء اور ائمہء معصومين کي ولايت ہي کي ايک کڑي ہے، اس کو چھوڑ کر شياطين اور دشمنان خدا کي ولايت و تسلط کو قبول کريں- خدا کي پناہ مانگني چاہئے اس بات سے کہ کسي دن ايران کي مسلمان قوم، استقلال و آزادي، عزت و امنيت کي عظيم نعمت کي ناشکري کے سبب غضب کا مستحق قرار پائے اور اپني ذلت و اہانت، اپنے سقوط و انحطاط کا ذريعہ دوبارہ اپنے ہي ہاتھوں سے فراہم کرے-
بہرحال پوري ملت خصوصاً ملک کے ثقافتي امور کے عہدہ داروں اور کارندوں کا فريضہ ہے کہ معاشرہ کے اخلاقي و ديني اعتقادات و اقدار کي حفاظت کريں-
بعض ايسے لوگ جو کہ ديني علوم و معارف ميں زيادہ بصيرت نہيں رکھتے اور سيکولرازم اور اصالت فرد (Individualism) کے نظريوں سے متاثر ہيں، حضرت علي ـ کے اس ارشاد کے متعلق (کہ تمھارے تمام درد اور مشکلات کا حل قرآن ميں ہے)، ان لوگوں کا تصور يہ ہے کہ اس ارشاد ميں درد اور مشکلات سے مراد لوگوں کے انفرادي، معنوي اور اخلاقي درد اور مشکلات ہيں- ليکن ہماري نظر ميں يہ توضيح صحيح نہيں ہے اس لئے کہ يہاں پر انفرادي و اجتماعي دونوں طرح کے مسائل موضوع بحث ہيں- يہ بات کہنا ضروري ہے کہ دين کي سياست سے جدائي اور نظريہء سيکولرازم کے بے بنياد ہونے کے متعلق يہاں پر تفصيل سے بحث کرنے کي گنجائش نہيں ہے، اس کے باوجود اس بحث کے ضمن ميں حضرت علي ـ کے ارشاد کي توضيح بيان کرنے کے ساتھ ساتھ دين کي سياست سے جدائي کے نظريہ کا بے بنياد ہونا اور سيکولرازم کے نظريہ کا باطل ہونا بھي واضح ہو جائے گا-
تحرير : آية اللہ محمد تقي مصباح يزدي ( شيعہ نيٹ )
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
شورائے نگہبان اور انتخابات کي نظارت
شورائے نگہبان يعني نگراں کونسل کے نظارتي فرائض
ماہرين کي کونسل کي نظارتي روش
نظارت اور عدليہ
ايک لازوال اور انوکھا انقلاب ( حصّہ دوّم )