بدزباني
بدگوئي ايک برى عادت ہے بدزبان اپنى بات کا پابند نہيں ہوتا جو کچھ اس کے منہ ميں آتا ہے کہے جاتا ہے ، گالى بکتا ہے ، ناسزا کہتا رہتا ہے ، شور مچاتا ہے ، برا بھلا کہتا رہتا ہے طعن زنى کرتا ہے ، زبان کے چرکے لگاتا ہے بدزبانى حرام ہے اور گناہان کبيرہ ميں سے ہے رسول اسلام صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: بد زبانى کرنے والے پر الله نے بہشت کو حرام قرار ديا ہے اور گالى دينے والے ، بے حيا اور بدتميز پر بھى جنت حرام ہے بدگو شخص جو کچھ دوسروں کے بارے ميں کہتا ہے نہ اس کا خيال رکھتا ے اور جو کچھ دوسرے اس کے بارے ميں کہتے ہيں ن اس پر دھيان ديتا ہے
امام صادق عليہ السلام نے فرمايا:
دشنام طرازى ، بدگوئي اور زبان درازى نفاق اور بے ايمانى کى نشانيوں ميں سے ہے الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے :
ويلٌ لکلّ ہمزة لمزة افسوس ہے ايسے سب افراد پر کہ جو لوگوں کى عيب جوئي اور طعن و تمسخر کرتے ہيں (ہمزہ بدزبانى افراد گھٹيا اور کم ظرف ہوتے ہيں اس برى عادت کى وجہ سے لوگوں کو اپنا دشمن بناليتے ہيں لوگ ان سے نفرت کرتے ہيں لوگ ان کى زبان سے ڈرتے ہيں اور ان سے ميل ملاقات سے دور بھاگتے ہيں
نبى کريم صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
لوگوں ميں سے بدترين وہ ہے کہ لوگ جسکى زبان سے ڈريں اور اس کے ساتھ ہم نشينى کو پسند نہ کريں
حضرت صادق عليہ اسلام نے فرمايا:
لوگوں ميں سے بدترين وہ ہے کہ لوگ جسکى زبان سے ڈريں اور اس کے ساتھ ہم نشينى کو پسند نہ کريں
حضرت صادق عليہ السلام نے فرمايا:
لوگ جس کى زبان سے بھى دڑيں وہ جہنم ميں جائے گا
رسول اسلام صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
مومن طعن زنى نہيں کرتا ، برا بھلا نہيں کہتا رہتا ، دشنام طرازى نہيں کرتا اور بدزبانى نہيں کرتا بچہ فطرى طور پر بدزبان نہيںہوتا يہ برى صفت وہ اپنے ماں باپ ، بہن بھائي يا ، دوستوں ، ہم جوليوں اور ہمجماعت بچوں سے سيکھتا ہے ليکن اس سلسلے ميں ماں باپ کا اثر سب سے زيادہ ہوتا ہے ماں باپ اپنے بچے کے ليے مؤثر ترين نمونہ عمل ہوتے ہيں لہذا ماں باپ نہ فقط اپنے قول و عمل کے ذمہ دار ہيں بلکہبچوں کى تربيت کے بھى ذمہ دار ہيں يہ ماں باپ ہى ہيں جو بچے کو خوش کلام يا بدزبان بناديتے ہيں ببعض ماں باپ مذاق کے طور پر يا غصّے ميں اپنے بچوں کو بدزبانى کا عملى درسديتے ہيں بعض گھروں ميں اس طرح کے کلمات روز مرّہ کا معمول ہيں: کتے کا بچہ ، کتے کى ماں ،کيتا کى بيٹي، احمق ، بے وقوف ، بے شعر ، گدھا ، حيوان ، حرام زادہ ، پاگل ، سست ، بے ادب ، بے غيرت ،خدا تمہيں موت دے ، گاڑى کے نيچے آؤ و غيرہ کبھى ماں باپ ايک دوسرے کى عيب جوئي کرتے ہيں ، ايک دوسرے کامذاق اڑاتے ہيں يا ايک دوسرے کو گالى ديتے ہيں ماں باپ جن کا فرض يہ ہے کہ بچوں کى کمزوريوں کو چھپائيں وہ کبھى خود بچوں کى عيب جوئي کرنے لگتے ہيں ، انہيں طعنے ديتے ہيں ، ان پر طنز کرتے ہيں اور انہيں سخت سست کلمات کہتے ہيں کيا ايسے ماںباپ کو توقع ہے کہ ايسے خاندان کا بچہ خوش زبان ہوگا ايسى توقع عموماً پورى نہيں ہوتى ايسے ماں باپ کو توقع رکھنا چاہيے کہ ان کے بچے انہى کى طرح بلکہ ا سے بڑھ کر بدزبان ہوں گے انہيں اميد رکھنا چاہيےکہ وہ بعينہ يہى الفاظ بچوں کے منہ سے سنيں گے وعظ و نصيحت اور مارپيٹ سے بچے کو اس برى عادت سے نہيں روکا جا سکتا بہترين طريقہ يہ ہے کہ ماں باپ اپنى اصلاح کريں اور پھر بچے کى اصلاح کى طرفمتوجہ ہوں کبھى بچے يہ برى عادت اپنے ہمجوليوں سے سيکھتے ہيں لہذا ماں باپ کو اس امر کى طرف توجہ رکھناچاہيے کہ ان کے بچوں کے دوست کسطرح کے ہيں انہيں اس بات کى اجازت نہ ديں کہ بدزبان بچوں سےميل جول رکھيں اگر آپ کبھى اپنے بچے سے کوئي فحشيا برى بات سنيں تو ہنس کر يا مسکر اکر اس کى تائيد نہ کريں گالى اور غصّے کے ذريعے سے بھى بچے کو ايسى بات سے نہ روکيں کيونکہ اس طريقے کا نتيجہ زيادہ تر الٹ ہى نکلتا ہے بلکہ اسے اچھے انداز سے اور پيارسے سمجھائيں اس سے کہيں گالى دينا برى عادت ہے اچھے بچے کبھى گالى نہيں ديتے –
بشکريہ : مکارم شيرازي ڈاٹ او آر جي
متعلقہ تحريريں:
جسماني سزا (حصّہ دوّم)
جسماني سزا
نومولود اور اخلاقى تربيت
کتاب کا مطالعہ (حصّہ ششم)
کتاب کا مطالعہ (حصّہ پنجم)