اخبارات و جرائد کا نظارتي کردار
اسلامي جمہوري نظام ايک عوامي نظام ہے- عوامي نظام يعني يہ کہ اس کے بنيادي ڈھانچے کي تشکيل ميں عوام کا کردار ہے، يہ عوام کو بے خبر نہيں رکھ سکتا، اسے عوام کو با خبر رکھنا ہے، انہيں تجزئے اور تبصرے کا موقع فراہم کرنا ہے، انہيں ضروري و مفيد اطلاعات و معلومات مہيا کرانا ہے- ايسے نظام ميں اطلاعات پاني اور ہوا کي مانند حياتي درجہ رکھتي ہيں، ہمارا نظام اسي انداز کا ہے- عوام جتنے زيادہ باخبر ہوں گے اسلامي نظام کو اتنا ہي زيادہ فائدہ پہنچے گا- بنابريں يہ نظام عوام کو واقف اور باخبر رکھنے کا متقاضي ہے-
ہمارے معاشرے کے افراد کو چاہئے کہ مختلف سياسي و سماجي ميدانوں ميں وارد ہوکر باريک بيني سے جائزہ ليں اور مناسب رہنمائي اور ہدايات کے ذريعے سب کو فرائض کي بابت آگاہ کريں- بے شک عوام اور حکام کے درميان ميڈيا بالخصوص اخبارات، رابطے کي وسيع کڑي ہے- اخبارات و جرائد کو چاہئے کہ عوام کو بر وقت مناسب اطلاعات فراہم کرنے کے کوشش کريں- ہمارے اخبارات و جرائد کو چاہئے کہ عوام کي اقدار، حقيقي شناخت اور آرزو ؤ ں پر توجہ ديں- اخبارات و جرائد معرفت بخش اقدامات کے ذريعے عوام کو بھي ان کے فرائض سے روشناس کرا سکتے ہيں اور حکام کو بھي ان کي سنگين ذمہ داريوں سے آگاہ کر سکتے ہيں- اگر کہيں معاملہ اس کے الٹ ہو تو يہي اخبارات و جرائد اختلافي باتوں کو ہوا ديکر اور غلط فہمي اور تفرقہ و انتشار پيدا کرکے عوام اور حکام دونوں کو ان کے بنيادي فرائض سے غافل کر سکتے ہيں-
ميں اخبارات و جرائد کو بہت ضروري اور لازمي مانتا ہوں، ايراني معاشرے اور ہر اس سماج کے لئے جو اچھي زندگي گزارنا چاہتا ہے- اخبارات و جرائد کے لئے ميري نظر ميں تين اہم ذمہ دارياں ہيں- تنقيد و نظارت کي ذمہ داري، شفاف اور درست اطلاعات کي فراہمي کي ذمہ داري اور معاشرے ميں تبادلہ خيال کروانے کي ذمہ داري- ميرا ماننا ہے کہ آزادي قلم و بيان، اخبارات و جرائد اور عوام کا مسلمہ حق ہے- اس ميں کوئي شک و شبہ نہيں ہے اور يہ آئين کے صريحي قوانين ميں سے ہے- ميرا نظريہ ہے اگر معاشرہ آزاد ذرائع ابلاغ اور آزاد و با فہم قلم سے محروم ہو جائے تو دوسري بہت سي چيزوں سے بھي محروم ہو جائے گا- آزاد اخبارات کا وجود قوم کے بلوغ فکري کي علامت اور در حقيقت فکري پيشرفت کي بنياد ہے- يعني ايک طرف قوم کي آزادي و فکري بلوغ سے اخبارات و جرائد کو وجود ملتا ہے اور دوسري طرف اخبارات و جرائد قوم کي فکري پيشرفت و بلندي ميں مددگار ہوتے ہيں- البتہ اس اصول کے ساتھ ہي ميري نظر ميں کچھ دوسرے اصول بھي ضروري ہيں جو اخبارات و جرائد اور قلم کي آزادي کے نام پر نظر انداز نہ ہونے پائيں- فن تو يہ ہے کہ انسان آزادي سے بھي بہرہ مند ہو، حقيقت کا بھي ادراک رکھے اور ساتھ ہي عيوب سے بھي اپنا دامن بچائے رہے- ايسي روش اختيار کرني چاہئے-
بشکريہ : خامنہ اي ڈاٹ آئي آڑ
متعلقہ تحريريں:
شورائے نگہبان يعني نگراں کونسل کے نظارتي فرائض
ماہرين کي کونسل کي نظارتي روش
نظارت اور عدليہ
ايک لازوال اور انوکھا انقلاب ( حصّہ دوّم )
نظارت اور مقننہ