عمومي نظارت (امر بالمعروف اور نہي عن المنکر، عمومي نظارت)
نظارت کا (جو پہلو سب سے پہلے مرحلے ميں عوام سے متعلق ہے سماجي امور ميں امر بالمعروف اور نہي عن المنکر ہے- ) انفرادي امور کے سلسلے ميں حضرت امير المومنين عليہ السلام نے تقوي پر سب سے زيادہ تاکيد فرمائي ہے، ليکن سماجي امور کے سلسلے ميں عوام کو امر بالمعروف اور نہي عن المنکر سے زيادہ سنجيدہ، زندہ اور حوصلہ انگيز کوئي اور حکم نہ ديا گيا ہوگا- امر بالمعروف اور نہي عن المنکر ايک عمومي فريضہ ہے- امر بالمعروف يعني لوگوں کو نيک کاموں کي دعوت دينا اور نہي عن المنکر يعني لوگوں کو برے کاموں سے روکنا- امر اور نہي زبان سے انجام دي جاتي ہے ليکن زبان سے بھي پہلے قلب کا مرحلہ ہوتا ہے، اگر يہ مرحلہ پورا ہوا ہے تو زبان سے انجام پانے والا امر بالمعروف مکمل ہوگا- جب آپ اسلامي نظام کي مدد کي غرض سے لوگوں کو نيک کاموں کا حکم ديں گے مثلا فقراء کے ساتھ نيکي، صدقہ دينے، رازوں کي حفاظت، محبت، تعاون، کارہائے نيک، تواضع، حلم، صبر وغيرہ کے بارے ميں آپ بات کريں اور کہيں کہ يہ کام کيجئے تو اگر اس نيک کام سے آپ کے دل کو بھي لگاؤ اور انسيت ہے تو آپ کا يہ حکم صادقانہ ہوگا- جب کسي کو برائيوں سے روکتے ہيں، مثلا ظلم کرنے، زيادتي کرنے، دوسروں (کے حقوق) پر تجاوز کرنے، عوام کے مال کو بے دردي سے خرچ کرنے، لوگوں کي ناموس کے سلسلے ميں دست درازي کرنے، غيبت، جھوٹ، چغلي، سازش، اسلامي نظام کے خلاف سرگرمياں انجام دينے اور اسلام کے دشمنوں کے ساتھ تعاون کے بارے ميں آپ کہتے ہيں کہ يہ کام نہ کيجئے تو اگر ان کاموں سے آپ کا دل بيزار ہوگا تو آپ کي يہ نہي صادقانہ ہوگي اور آپ خود بھي اس امر و نہي کے مطابق عمل کريں گے- ليکن اگر خدانخواستہ آپ کا دل آپ کي زبان کے ہمراہ نہ ہوا تو آپ اس انسان "لعن اللہ الآمرين بالمعروف التارکين لہ" کا مصداق بن جائيں گے- جو شخص دوسروں کو تو نيک عمل کرنے کا حکم ديتا ہے ليکن خود اس پر عمل نہيں کرتا، لوگوں کو تو برائيوں سے روکتا ہے ليکن خود ان کا مرتکب ہو رہا ہے، ايسا شخص اللہ تعالي کي لعنت کا مستحق ہوتا ہے اور اس کا انجام بہت خطرناک ہوگا-
اگر امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کے معني اور ان کي حدود، عام لوگوں کے لئے واضح اور آشکارا ہو جائيں تو معلوم ہوگا کہ سماجي روابط کے سلسلے ميں يہ سب سے زيادہ کارآمد، کارساز، شيريں اور جديد طريقہ ہے- يہ در حقيقت تعاون سے عبارت ہے، يہ عام نگراني ہے- يہ اچھائيوں کا سرچشمہ ہے- يہ برائيوں اور شر پر قابو پانے ميں مددگار ہے، اس کا نتيجہ يہ ہوتا ہے کہ معاشرے ميں گناہ کو ہميشہ گناہ تصور کيا جائے- يہ چيز انتہائي خطرناک ہے کہ کوئي وقت ايسا آئے جس ميں معاشرے ميں گناہ کو نيکي کے طور پر متعارف کرايا جائے اور اچھے کام کو برا کہا جانے لگے اور پوري ثقافت ہي تبديل ہو جائے- اگر معاشرے ميں امر بالمعروف اور نہي عن المنکر رائج ہو تو گناہ کو عوام ہميشہ گناہ ہي تصور کريں گے، اسے نيک اور ثواب کا کام نہيں سمجھيں گے- عوام کے خلاف سب سے بڑي سازش يہ ہے کہ ايسي باتيں اور کام رائج کر دئے جائيں جن سے اچھے کام، جن کا دين نے حکم ديا ہے اور جن ميں ان کي بھلائي ہے، لوگوں کي نظر ميں برے بن جائيں اور برے کاموں کو اچھا قرار دے ديا جائے- يہ بہت ہي خطرناک چيز ہے-
بنابريں امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کا سب سے پہلا فائدہ تو يہي ہے کہ اچھائي اور برائي کو اچھائي اور برائي ہي سمجھا جاتا ہے- دوسري طرف جب معاشرے ميں گناہ عام ہو جائے اور عوام کو گناہوں کي عادت پڑ جائے تو جو شخص معاشرے کا ذمہ دار ہے اور عوام کو خير و نيکي کي سمت لے جانا چاہتا ہے اس کا کام بہت مشکل ہو جاتا ہے، وہ ناکام ہو جائے گا، يا پھر آساني سے اپنا کام نہيں کر پائے گا، يہ کام کرنے کے لئے اسے بہت کچھ صرف کرنا پڑے گا- ارشاد ہوتاہے " لتامرن بالمعروف و لتنھون عن المنکر او ليسلطن اللہ عليکم شرارکم فيدعوا خيارکم فلا يستجاب لھم" اپنے درميان امر بالمعروف اور نہي عن المنکر رائج کيجئے اور اس کے پابند رہئے، اگر آپ نے ايسا نہ کيا تو اللہ تعالي آپ پر شر پسندوں، مفسدوں اور (دوسروں کے) آلہ کاروں کو مسلط کر دے گا- اگر امر بالمعروف اور نہي عن المنکر نہ ہو اور معاشرے ميں چوري، غير قانوني کام، بد عنواني اور خيانت رائج ہو جائے اور (يہ صورت حال) رفتہ رفتہ معاشرے کي ثقافت کا حصہ بن جائے تو نابکار افراد کے بر سراقتدار آنے کي راہيں کھل جائيں گي-
بشکريہ : خامنہ اي ڈاٹ آئي آڑ
متعلقہ تحريريں:
نظارت اور عدليہ
ايک لازوال اور انوکھا انقلاب ( حصّہ دوّم )
نظارت اور مقننہ
نظارت و نگراني
اسلامي انقلاب ميں خواتين کا صبر و استقامت اورمعرفت