• صارفین کی تعداد :
  • 4478
  • 8/29/2011
  • تاريخ :

کتاب کا مطالعہ (حصّہ ششم)

کتاب کا مطالعہ

بچے جرائم کى کتابيں جن ميں پوليس، قتل، اور چورى ڈاکہ کى باتيں ہوں بڑے شوق سے پڑھتے ہيں ليکن اس طرح کى کتابيں نہ فقط يہ کہ بچوں کے ليے سودمند نہيں ہيں بلکہ انہيں قتل ، جرم اور چورى و غيرہ کے طريقے سکھاتى ہيں جسسے ان کى سلامتى ، اور روحانى و نفسياتى سکون تباہ و برباد ہوجاتا ہے اور اسى طرح جنسى قوت کو تحريک دينے والى کتابيں بھى بچوں کے ليے نقصان وہ ہيں کيوں کہ ممکن ہے ان کتابوں سے ان کى جنسى قوت وقت سے پہلے بيدار ہوجائے اور انہيں تباہى و بربادى کى وادى ميں دھکيل دے ايک صاحب اپنى يادداشتوں ميں لکھتے ہيں: ... ...ميرى دادى اماں تھيں جو مجھ سے بہت محبت کر تى تھيں رات کو ميں ان کے پاس ہوتا اور ان سے کہانى سنانے کى ضد کرتا وہ مجھے سلانے کے ليے ہر رات ايک کہانى سناتيں وہ مجھے جن بابا کى کہانى سناتيں اور اسى طرح دوسرى ڈراؤنى کہانياں ان کہانيوں نے ميرى روح اور نفسيات پر اپنا اثر چھوڑا ميں اسى پريشانى کن حالت ميں سوجاتا اور خواب ميں بھى يہ افکار مجھے پريشان کرتے رہتے ميں ان تحريک آميز اور فرضى کہانيوں اور افسانوں کو بہت پسند کرتا انہوں نے ميرى روح کو بہت حساس اور پريشان کرديا ميں بزدل اور ڈرپوک بن گيا تنہائي سے مجھے خوف آتا ميں غصيّلہ اور زود رنج ہوگيا يہ کيفيت ابھى بھى مجھ ميں باقى ہے کاش والدين اس طرح کى جھوٹى اور تحريک آميز کہانياں اپنے بچوں کو نہ سنائيں ميں نے يہ پکاارادہ کيا ہوا ہے کہ اپنے بچوں کو اس طرح کى کہانياں نہيں سناؤ ں  گا ميں عموماً انہيں قرآنى قصے اور ديگر سچى کہانياں سناتا ہوں

کتاب پڑھنے کا مقصد صرف وقت گزارى نہيں ہے بلکہ اس کا اصل مقصد اس کے مطالب و سمجھنا او ر ان سے استفادہ کرناہے يہ بات اہم نہيں ہے کہ بچہ کتنى کتاب پڑھتا ہے بلکہ اہم يہ ہے کہ اس نے يہ کتاب کس طريقے سے پڑھى ہے کيا سرسرى طور پر پڑھ کرگزرکيا ہے يا غور فکر سے اور سمجھ کر اس نے پڑھى ہے ماں باپ کو اس سلسلے ميں پورى توجہ رکھنى چاہيے بچے سے کبھى کبھى کتاب کے مطالب کے متعلق سوال کرتے رہنا چاہيے اور ان مطالب کے صحيح يا غلط ہونے کے بارے ميں بھى اس کى رائے معلوم کرتے رہنا چاہيئے نيز چاہيئے کہ اس سے دريفات کيا جائے اس سے اس نے کيا نتيجہ حاصل کيا ہے

بچوں کو انسانوں اور جھوٹ پر مشتمل حير ت انگيز کتابيں بھى بہت اچھى لگتى ہيں بچوں کى ايسى کتابوں سے محبت کى ہى بعض دانشور تائيد کرتے ہيں اور کہتے ہيں اس طرح کى کتابيں بچے کے وسعت تخيّل کے ليے بہت مفيد ہيں ليکن راقم کى رائے يہ ہے کہ غير حقيقى اور افسانوں کى کہانياں بچوں کو جھوٹ کا عادى بناديتى ہيں اور اس کے دماغ ميں جھوٹے اور غير حقيقى افکار جاگزيں ہوجاتے ہيں جب وہ بڑا ہوجائے گا تو اپنى خواہشات کى تکميل کے ليے بھى غير حقيقى راستے تلاش کرے گا

يہ صحيح ہے کہ بچہ کہانيوں کو باقى سب چيزوں کى نسبت زيادہ پسند کرتا ہے ليکن ايسا نہيں ہونا چاہيے کہ وہ فقط کہانيوں پڑھنے کا عادى ہوجائے بلکہ کبھى کبھى علمى ، اخلاقى اور اجتماعى امور پر مشتمل فائدہ بخش کتب بھى اسے دى جائيں تا کہ وہ آہستہ آہستہ گہرے اور دقيق علمى مطالب سمجھنے کے ليے آمادگى پيدا کرے اور بعد ميں فقط علمى کتابيں پڑھنے کا عادى ہوجائے

ايسا نہيں ہے کہ بچہ فقط افسانوى اور جھوٹى کتابوں کو پسند کرتاہو بلکہ بڑى شخصيات اور حقيقى تاريخ ساز انسانوں کى زندگى پر مشتمل کتابيں بڑے شوق سے پڑھتا ہے اور اس طرح کى کتابيں پڑھنے سے کسى شخصيت کو اپنا ائيڈيل اور نمونہ عمل قرار ديتا ہے اس طرح کى کتابيں بچے کے ليے دلچسپ بھى ہيں اور مفيد بھى ہيں

بشکريہ :  مکارم شيرازي ڈاٹ او آر جي


متعلقہ تحريريں:

کتاب کا مطالعہ (حصّہ دوّم)

کتاب کا مطالعہ

تمام والدين کي  آرزو

والدين کا احترام

بچوں کي خوراک سے متعلق چند باتوں کو ہميشہ ذہن ميں رکھيں