• صارفین کی تعداد :
  • 1621
  • 8/23/2011
  • تاريخ :

اقبال کي اُردو غزلوں ميں رديف کا استعمال کي اہميت (حصّہ چهارم)

علامہ اقبال

بانگِ درا" کي غزليات کے تجزياتي مطالعے سے يہ بات سامنے آتي ہے کہ اقبال کے ہاں سوائے ايک پانچ لفظي رديف کے زيادہ تر رديفيں يک لفظي يا دو لفظي ہيں-

غزلياتِ بانگ درا ميں رديف کي کم سے کم شموليت کا رجحان "بالِ جبريل" کي غزلوں ميں رديف کے بغير غزل گوئي کے اسلوب کي بنياد بنا- "بالِ جبريل" ميں غير مردّف غزلوں کا ايک قابلِ ذکر اثاثہ (77 ميں سے 50) موجود ہے-

"بالِ جبريل" کي رديف والي غزليں اس اعتبار سے اہم ہيں کہ اس ميں مختصر، متوسطہ اور نسبتاً طويل رديفوں کا استعمال اپنے کمال پر نظر آتا ہے- اس کي سب سے بڑي وجہ "بالِ جبريل" ميں غزلوں کا وہ قابل ذکر اور قابل قدر فکري سرمايہ ہے جس کے ذريعے اقبال نے اپنے پيغام کو بہتر اور موثر پيرائے ميں ادا کيا- "بانگِ درا" ميں غزليں نظموں کے قريباً برابر ہے- "بالِ جبريل" ميں غزليں 26 (بہ شمول قطعہ غزليہ انداز بياں گرچہ بہت شوخ نہيں ہے) ہيں اور نظميں 61 (بہ شمولہ قطعہ  فطرت مري مانند نسيم سحري ہے اور کل اپنے مريدوں سے کہا پيرِ مغان نے)- يوں "بال جبريل" ميں غزلوں کا اثاثہ رديف کے مطالعہ کے حوالے سے زيادہ جاندار ہے- "بالِ جبريل" کي مردّف غزلوں ميں رديفيں "بانگِ درا" کے مقابلے ميں کہيں زيادہ جاندار، با معني اور پر تاثير ہيں-

عام رديفوں (ميں، کر، کا، نہيں، آخر، آيا) کے علاوہ اقبال کي غزلوں کي وہ رديفيں ملاحظہ کيجئے جو اردو شاعري ميں نہ صرف نئي ہيں بلکہ پوري غزل کے اجتماعي مزاج کو متعين کرنے ميں بھي کارآمد اور موثر و بليغ ثابت ہوتي ہيں-

 گر کج روہيں انجم، آسماں تيرا ہے يا ميرا؟

*

رديف: تيرا ہے يا ميرا

پريشاں ہوکے ميري خاک آخر دن نہ بن جائے

*

رديف: نہ بن جائے

دِگر گوں ہے جہاں، تاروں کي گردش تيز ہے ساقي

*

رديف: ہے ساقي

لاپھر اک بار وہي بادہ و جام اے ساقي!

*

رديف: اے ساقي

اپني جولاں گاہ زيرِ آسماں سمجھا تھا ميں

*

رديف: سمجھا تھا ميں

عالم آب و خاک و باد، سرّ عياں ہے تو کہ ميں

*

رديف: ہے تو کہ ميں

تو ابھي رہ گزر ميں ہے، قيدِ سے گزر

*

رديف: سے گزر

                                                دل سوز سے خالي ہے، نگہ پاک نہيں ہے

*

رديف: نہيں ہے

عقل گو آستاں سے دور نہيں

*

رديف: سے دور نہيں

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہيں 

*

رديف: سوا کچھ اور نہيں 

نگاِہ فقر ميں شان سکندري کيا ہے

*

رديف: کيا ہے

نہ تو زميں کے لئے ہے نہ آسماں کے ليے

*

رديف: کے ليے

تو اے اسير مِکاں! لا مکاں سے دور نہيں

*

رديف: سے دور نہيں

خرد مندوں سے کيا پوچھوں کہ ميري ابتدا کيا ہے

*

رديف: کيا ہے

ستاروں سے آگے جہاں اور بھي ہيں

*

رديف: اور بھي ہيں

مکتبوں ميں کہيں رعنائي افکار بھي ہے

*

رديف: بھي ہے

حادثہ وہ جوا بھي پردہ افلاک ميں ہے

*

رديف: ميں ہے

نہ تخت و تاج ميں نہ لشکر و سپاہ ميں ہے

*

رديف: ميں ہے

  رديف کي خوبي يہ ہوتي ہے کہ وہ ہر شعر کے اندر اپنے جواز کا اظہار تخليقي انداز ميں کرے- اقبال کے اردو کلام ميں "بالِ جبريل" کي غزلوں ميں رديفيں اس کمال مہارت کے ساتھ استعمال ہوتي ہيں کہ وہ ہر شعر ميں معنويت کو آگے بڑھاتي اور مکمل کرتي نظر آتي ہيں اقبال کي اس غزل کو ديکھيے جس کا مطلع ہے

تحریر: رابعہ سرفراز


 متعلقہ تحريريں :

  بانگِ درا (حصہ اول ... 1905 تک)

مياں محمد بخش، صوفي شاعر

ستارہ

پيار کا پہلا شہر (حصّہ ششم) 

منير نيازي