اسلام ميں تعليم نسوان پر تاکيد
علم دين اسلام کي بنيادوں ميں سے ايک اہم بنياد ہے- علم کي اس سے بڑھ کر کيا اہميت بيان کي جا سکتي ہے کہ اللہ تبارک و تعاليٰ نے اپنے محبوب اور آخري نبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر جب نزول وحي کي ابتدا فرمائي تو پہلا حکم ہي پڑھنے کا نازل فرمايا- اس پر تمام ائمہ و مفسرين کا اتفاق ہے کہ نزول وحي کا آغاز سورۃ العلق کي ابتدائي پانچ آيات مبارکہ سے ہوا ہے:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍO اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُO الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِO عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْO
(العلق، 96: 1-5)
’’(اے حبيب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھيے جس نے (ہر چيز کو) پيدا فرمايا اس نے انسان کو (رحم مادر ميں) جونک کي طرح معلق وجود سے پيدا کياo پڑھيے اور آپ کا رب بڑا ہي کريم ہےo جس نے قلم کے ذريعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھاياo جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھي) وہ (کچھ) سکھا ديا جو وہ نہيں جانتا تھا‘‘
اب ان آيات مبارکہ ميں جہاں پہلا حکم ہي حصول علم کے process کے پہلے مرحلے يعني پڑھنے کے حکم سے ہوا، وہاں پہلي آيت ميں اللہ تعاليٰ کے رب اور خالق ہونے کے بيان کے ساتھ ساتھ علوم کي دو اہم شاخوں - عمرانيات اور تخليقات - کي طرف اشارہ فرمايا گيا ہے- دوسري آيت ميں علم حياتيات؛ تيسري آيت ميں علم اخلاقيات کي طرف اشارہ فرماتے ہوئے يہ بات بھي واضح کر دي گئي کہ اسلام کا تصوّر علم بڑا وسيع ہے اور جب اسلام طلب و حصول علم کي بات کرتاہے تو وہ سارے علوم اس ميں شامل ہوتے ہيں جو انسانيت کے ليے نفع مند ہيں؛ اور اس سے مراد صرف روايتي مذہبي علوم نہيں- قرآن مجيد کي متعدد آيات ميں زمين و آسمان کي تخليق ميں تدبر و تفکر کي دعوت دي گئي اور يہي تدبر و تفکر جديد سائنس کي بنياد بنا- تاريخ اس بات کي گواہ ہے کہ جديد سائنس، جس پر آج انسانيت ناز کرتي ہے، اس کي صرف بنياد ہي مسلمانوں نے نہيں رکھي بلکہ وہ اصول و ضوابط اور ايجادات و دريافتيں بھي مسلمانوں نے ہي کي ہيں جنہوں نے سائنس کي ترقي ميں اہم ترين کردار اداکيا ہے- (چونکہ يہ اصل مضمون نہيں لہٰذا اس کي تفصيل کے خواہش مند شيخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادري کي دو جلدوں پر مشتمل کتاب ’’مقدمہ سيرت الرسول ص‘‘ کا مطالعہ فرمائيں-) اسلام کے ايک ہزار سالہ عروج کے بعد اس کو درپيش آنے والے زوال کا ايک افسانہ يہ بھي ہے کہ بہت سے واضح اور بنيادي تصورات - جن پر تاريخ ميں کبھي ابہام نہ رہا تھا - اس دور ميں دھندلائے ہي نہيں بلکہ پراگندہ ہو گئے ہيں- ان ميں ايک خواتين کا حصول علم ہے- آج کے دور ميں بعض ايسے مذہبي ذہن موجود ہيں جو عورتوں کے حصول علم کے خلاف ہيں اور اگر خلاف نہيں تو ايسي پابنديوں کے قائل ضرور ہيں کہ جن کي وجہ سے خواتين اور بچيوں کا حصول علم ناممکن ہوجائے- حصول علم کے فرض ہونے پر کوئي اختلاف نہيں- قرآن مجيد ميں پانچ سو کے لگ بھگ مقامات پر بلا واسطہ يا بالواسطہ حصول علم کي اہميت اور فضيلت بيان کي گئي- حضور نبي اکرم ص کے فرائض نبوت کا بيان کرتے وقت بھي اللہ تبارک و تعاليٰ نے ارشاد فرمايا-:
كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ O
(البقرۃ، 2: 151)
’’اسي طرح ہم نے تمہارے اندر تمہي ميں سے (اپنا) رسول بھيجا جو تم پر ہماري آيتيں تلاوت فرماتا ہے اور تمہيں (نفساً و قلباً) پاک صاف کرتا ہے اور تمہيں کتاب کي تعليم ديتا ہے اور حکمت و دانائي سکھاتا ہے اور تمہيں وہ (اسرار معرفت وحقيقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے‘‘
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ O
(الجمعہ، 62: 2)
’’وہي ہے جس نے ان پڑھ لوگوں ميں انہي ميں سے ايک (با عظمت) رسول کو بھيجا وہ ان پر اس کي آيتيں پڑھ کر سناتے ہيں- اور ان (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہيں اور انہيں کتاب و حکمت کي تعليم ديتے ہيں بے شک وہ لوگ ان (کے تشريف لانے) سے پہلے کھلي گمراہي ميں تھے‘‘
ان آيات کے بغور مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ آپ ا کے فرائض نبوت: تلاوت آيات، تزکيہ نفس، تعليم کتاب، تعليم حکمت اور ابلاغ علم ہيں- ان پانچ ميں سے چار براہ راست علم سے متعلق ہيں جبکہ پانچواں اور ترتيب ميں دوسرا تزکيہ نفس بھي علم کي ايک خاص قسم ہے جسے علم تزکيہ و تصفيہ يا اصطلاحاً تصوف کہا جاتا ہے- اب اگر علم کے دروازے خواتين پر بند کر ديے جائيں يا ان کے حصول علم پر بے جا پابندياں عائد کرنا شروع کر دي جائيں تو پھر وہ کس دين پر عمل کريں گي- يا ان کا دين مصطفوي سے کيارابطہ رہ جائے گا- کيونکہ جو دين حضور نبي اکرم ص لے کر آئے وہ تو سارے کا سارا علم سے عبارت ہے-
تحریر: ڈاکٹر رحيق عباسي
متعلقہ تحريريں :
اسلام ميں عورت کا حق وراثت
شريک حيات کے حقوق ( حصّہ دوّم )
خواتين کا اسلامي تشخص اور اُس کے تقاضے
خواتين پر مغرب کا ظلم اور خيانت
عورت کا مقام و مرتبہ ( حصّہ چهارم)