خواتين پر مغرب کا ظلم اور خيانت
اہل مغرب کو خواتين کے بارے ميں اپني خيانت کا ہر صورت ميں جوابدہ ہونا چاہيے کيونکہ مغربي تہذيب و تمدن نے عورت کو کچھ نہيں ديا ہے- جہاں کہيں بھي علمي ، سياسي اورفکري پيشرفت اورترقي کا مشاہدہ کيا جارہا ہے يہ خواتين کي اپني کوششوں کا نتيجہ ہے- دنيا ميں جہاں بھي يہ صورتحال سامنے آئے ہے،ايران ہوياديگر ممالک، سب جگہ خود خواتين نے جد و جہد کي ہے-
وہ چيز جس کو مغرب نے خود پروان چڑھايا اور مغربي تمدن نے جس عمارت کي ٹيڑھي بنياد رکھي وہ ہر قسم کي قيد و شرط سے آزاد ، مرد و عورت کے آزادانہ تعلقات اور عرياني و فحاشي ہے- انہوں نے عورت کي نہ صرف يہ کہ گھر ميں اصلاح نہيں کي بلکہ عورت کو (گھر سے باہر نکال کر ) بے حيائي اور عرياني و فحاشي کي طرف کھينچ کر لے گئے - امريکي اور يورپي اخبارات و مطبوعات ميں بارہا خواتين کو دي جانے والي اذيت و آزار، مشکلات، بے توجہي اور سنگ دلي کے واقعات اور خبريں چھپتي رہتي ہيں- خواتين کو بے بند وباري، آزادانہ (جنسي و غير جنسي) تعلقات اور عرياني و فحاشي کي طرف کھينچنے کے نتيجے ميں مغرب کے خانداني اور عائلي نظام کي بنياديں کمزور ہوگئي ہيں، وہاں گھرانے اور خاندان کا شيرازہ روز بروز بکھرتا جا رہا ہے اور اس بات کا سبب بنا ہے کہ وہ اور گھرانے اور خاندان ميں مرد و عورت کي ايک دوسرے سے خيانت کو سہل انگاري سے ديکھيں، کيا يہ گناہ نہيں ہے؟ کيا يہ صنفِ نازک سے خيانت نہيں ہے؟ اس کثيف ترين ثقافت اور تمدن کے باوجود بھي يہ لوگ دنيا پر اپني برتري کے خواہاں ہيں جبکہ انہيں جوابدہ ہونا چاہيے!
مغربي ثقافت کو خواتين کے بارے ميں اپنے ظلم و خيانت کي وجہ سے دفاعي حالت ميں ہونا چاہيے کہ وہ اپنے امور اور اقدامات کا دفاع کريں اور ان کي وضاحت کريں-ليکن سرمايہ دارانہ نظام اور مستکبرانہ ذرائع ابلاغ کا مغربي معاشرے پر تسلط اورغلبہ اِس حقيقت کو الٹا ہي پيش کررہا ہے- جس کے نتيجے ميں وہ حقوق نسواں کے چيمپئن بنے بيٹھے ہيں اور خود اُن کي اپني اصلاح کے مطابق حقوق نسواں کے علمبردار وطرفدار ہيں! حالانکہ ايسي کوئي چيز وجود نہيں رکھتي- البتہ مغرب ميں کچھ مفکرين ، فلسفي حضرات اور سچے اور نيک انسانوں کا جود بھي ہے جو پاک نيتوں کے حامل ہيں اور(حق کي) بات کرتے ہيں- جو کچھ ميں بيان کررہا ہوں وہ خواتين پر مغربي ثقافت اور تمدن کے ظلم و خيانت کي عمومي شکل ہے-
خواتين کا اسلامي تشخص اور اُس کے تقاضے
ايران (سميت ديگر اسلامي ممالک) کي خواتين کي کوشش يہ ہوني چاہيے کہ وہ ايک مسلمان عورت کي حقيقي تشخص کو اس طرح زندہ کريں کہ وہ پوري دنيا کو اپني طرف متوجہ کرا سکے- يہ ہے آج کي مسلمان عورت کا وظيفہ خصوصاً جوان خواتين اور اسکول ، کالج اور يونيورسٹي کي طالبات کا-
اسلامي تشخص يہ ہے کہ عورت جب اپني خاص زنانہ خصوصيات اور نسوانہ مزاج و تشخص کي حفاظت کرے کہ جو اس کي طبيعت و فطرت سے عبارت ہے اور ہر جنس (موجود) کي خصوصيات ہي اُس کي قدر و قيمت و اہميت کا باعث ہوتي ہيں، يعني جب ايک عورت اپنے نرم و نازک اور لطيف احساسات، پيار ومحبت ،عشق و چاہت اور خاص نسوانہ صفات کي حفاظت کرے تو اُسي کے ساتھ ساتھ معنوي اقدار کے ميدان ميں علم ، تقويٰ، تقرب خدا، معرفت الٰہي اور وادي عرفان ميں پيشرفت کرے اور ساتھ ہي سياسي اور اجتماعي مسائل، صبر، استقامت، سياسي فعاليت، سياسي شعور، اپنے مستقبل، اپنے ملک سميت ديگر اسلامي ممالک اور مسلمان اقوام کے بڑے اہداف، دشمن اور اس کي سازشوں اور چالوں کي شناخت ميں روزبروز ترقي کرے اور اپني اطلاعات اور آگہي کو زيادہ کرے- اسي طرح ايک عورت پر ضروري ہے کہ اپنے گھرانے اورخاندان ميں عدل و انصاف اور پرسکون ماحول کے ايجاد اور اُن کي بقاء کيلئے بھي سرگرم رہے- ان تمام مسائل سے مربوط قوانين کا وجود اور اُن کي تصحيح اگر لازمي وضروري ہے تو خواتين کو تعليم ، آگاہي ،شعور اور معرفت کے ساتھ ان تمام ميدانوں ميں حرکت کرني چاہيے اور وہ ايک مثالي عورت کا نمونہ پيش کريں- انہيں چاہيے کہ وہ يہ کہيں کہ مسلمان عورت ايسي عورت ہے جو اپنے دين، حجاب ، نسوانيت اور اپنے مزاج کي نرمي و لطافت کي حفاظت کرتي ہے، اپنے حق کا نہ صرف يہ کہ دفاع بھي کرتي ہے بلکہ معنويت ،علم و تحقيق اور تقرب الٰہي کے ميدان ميں پيش رفت کرتے ہوئے مثالي خواتين کا نمونہ بھي پيش کرتي ہے اور ساتھ ہي وہ سياسي ميدان ميں بھي اپنا فعال کردار ادا کرتي ہے- ايسي عورت، مسلمان خواتين کيلئے اسوہ اور آئيڈيل بن سکتي ہے-
کتاب کا نام : عورت ، گوہر ہستي
تحرير :حضرت آيت اللہ العظميٰ امام سيد علي حسيني خامنہ اي دامت برکاتہ
ترجمہ : سيد صادق رضا تقوي
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں :
عورت کا مقام و مرتبہ
خواتين پرمغرب کا ظلم و ستم اور اسلام کي خدمات ( دوسرا حصّہ)
خواتين پرمغرب کا ظلم و ستم اور اسلام کي خدمات
تربيت اولاد
ايران کي تاريخ ميں عورت