نظارت و نگراني
نظارت کي اہميت
ما تحت عملے پر نظارت رکھنا بہت اہم ہے- ميں تاکيد کر رہا ہوں کہ اعلي عہدہ داران اور دائريکٹر حضرات ما تحت عملے پر نظارت و نگراني کو خاص اہميت ديں- آپ کي کھلي نگاہيں جب آپ کے دائرہ کار ميں دوڑتي رہيں گي تب ہي کام کے صحيح طور پر آگے بڑھتے رہنے کي ضمانت حاصل ہو سکے گي- انساني عملے مشينوں کي طرح نہيں ہوتے کہ ايک بٹن دبا ديا اور مشين خود بخود کام کرنے لگي- انسانوں کے عملے ميں ارادہ ہوتا ہے، فکر و نظر ہوتي ہے، ذوق اور رجحان ہوتا ہے، اچھي اور بري خواہشيں ہوتي ہيں- جو فيصلہ آپ نے کيا ہے اور جس کا انتظام کيا ہے اور جو کام آپ کے ما تحت عملے ميں انجام پانا ہے، ممکن ہے اس ميں کسي جگہ پر پہنچنے کے بعد انہي ارادوں، نقطہ نگاہ، ذوق يا خواہشوں کي شکل ميں کوئي رکاوٹ پيدا ہو جائے- جيسے بہتے ہوئے پاني کے سامنے کوئي پتھر آ جائے يا پاني کے ہلکے بہاؤ کے سامنے ريت آ جائے تو بہاؤ مڑ جائے گا- اب اس رکاوٹ کو دور کرنا ہوگا اور ايسا اسي وقت ہو سکتا ہے جب نظارت ہو- معلوم ہوا نظارت بہت اہم ہے-
نگراني کا معيار
نظارت و نگراني کے سلسلے ميں قانون اور معينہ معيار ملحوظ رکھا جانا چاہئے، ذاتي ذوق اور رجحان نہيں- آپ ہرگز ذاتي ذوق کے مطابق آگے نہ بڑھئے- اس انداز سے کام کيجئے کہ اللہ تعالي اور اس کے بندوں کے سامنے جواب دے سکيں- قوانين پر عمل آوري کے سلسلے ميں کوئي رو رعايت نہ کيجئے- اخلاقي پہلو و ں پر توجہ دينا چاہئے- ان ميں سے ايک يہ ہے کہ ذاتي امور کو بنيادي مسائل ميں خلط ملط نہيں کرنا چاہئے- مثال کے طور پر سياسي مسائل کو انقلابي ہونے يا انقلاب مخالف ہونے جيسے موقف سے چسپاں نہيں کرنا چاہئے- دوستي اور دشمني کا معاملہ بھي ايسا ہي ہے- کبھي کسي کو ايک شخص پسند ہوتا ہے اور دوسرا نا پسند- ايسے ميں بہت محتاط رہنا چاہئے کہ يہ چيز کسي بھي سطح پر آپ کو متاثر نہ کر دے- آپ بغير تحقيق کے کسي پر بھي الزام نہ لگائيے- ظاہري طور پر انتہائي ابتدائي علامتيں ديکھ کر کسي کو مجرم قرار نہيں دينا چاہئے-
مجريہ، مقننہ، عدليہ اور نظارت
نظارت اور مجريہ
يہ بيوروکريسي اور يہ انتظاميہ جو ناگزير سسٹم ہے، اگر اس کي نگراني نہ کي جائے تو بہت خطرناک چيز ميں تبديل ہو جائے گي- نگراني آپ کو بآساني آپ کے اہداف تک پہنچا سکتي ہے- اگر مجريہ کا سسٹم آپ کے ہاتھ ميں نہ ہو تو آپ کوئي ہدف حاصل نہيں کر سکتے، ليکن يہ سسٹم اگر چاہ لے تو آپ کو اس ہدف تک ہرگز پہنچنے نہ دے- اس کا انحصار اس پر ہے کہ اس کي تشکيل اور پورے سسٹم پر آپ کي نظارت کيسي ہے- اگر آپ نے اس پر بھر پور نگراني رکھي تو يہ آپ کے اختيار ميں رہے گا ليکن اگر آپ نے غفلت برتي تو پھر آپ خود اس کے دام ميں اسير ہو جائيں گے- پھر آپ کتنے ہي طاقتور ہوں، اس سے نمٹ نہيں پائيں گے-
ميں يہ نہيں کہتا کہ صرف بہترين افراد کا ہي انتخاب کريں- يہ بھلا کيسے ہو سکتا ہے کہ ايک معيار معين کرکے اپنے عملے کے ايک، دو يا دس ہزار افراد کو اول سے ليکر آخر تک اسي معيار پر پرکھا جائے؟! يہ کہاں ممکن ہے؟! مان ليجئے آپ نے اسي معيار پر سب کو تولا، ليکن يہ ضروري تو نہيں کہ سب ہميشہ اچھے ہي رہيں- کيونکہ کيا اچھے انسانوں کو وسوسے منحرف نہيں کر ديتے؟! بنابريں سب سے قابل اعتماد چيز يہ ہے کہ آپ نظارت اور نگراني کے لئے وقت ديجئے-
اگر ايک اچھا ڈائريکٹر اپنا وقت تقسيم کرنا چاہے تو يہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسے اپنا آدھا وقت اپنے ما تحت سسٹم کي نظارت پر اور باقي نصف وقت ديگر کاموں مثلا غور و فکر کرنے، منصوبہ سازي کرنے، احکامات صادر کرنے، ميٹنگيں کرنے وغيرہ ميں صرف کرنا چاہئے- ما تحت سسٹم پر نظارت کا مطلب ہے کہ آپ ہميشہ موجود رہئے- البتہ وزراء کے کاموں پر صدر مملکت کي نظارت وزراء کي اپنے کاموں ميں آزادي و خود مختاري سے متصادم نہ ہونے پائے- وزراء کے قانوني فرائض ہوتے ہيں، وہ پارليمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر چکے ہوتے ہيں تو وہ خود مختار ہوتے ہيں- ليکن پھر بھي وزراء کے سلسلے ميں بھي نظارت لازمي ہے- ان کي آزادي عمل اپني جگہ باقي ہے ليکن صدر کي جانب سے ان کي مکمل نگراني کي جاني چاہئے-
بشکريہ : خامنہ اي ڈاٹ آئي آڑ
متعلقہ تحريريں:
اقتصادي سکيور ٹي
معاشرے ميں عدليہ قانون کي ضامن
بد عنواني کے سد باب کے لئے پيشگي اقدامات
انصاف کا دائرہ
انصاف کي بنياد