دوسري صدي ھجري کے دوران شيعوں کي حالت
دوسري صدي ھجري کي پھلي تھائي کے آخر ميں تمام اسلامي ممالک ميں بني اميہ حکومت کے ظلم وستم اور بدسلوکي کي وجہ سے جوانقلابات او ر خوني جنگيں ھوئيں ، ان ميں پيغمبر اکرم (ص) کے اھل بيت(ع) کے نام پر ايران کے مشرقي صوبے خراسان ميں بھي ايک تحريک نے جنم ليا - اس تحريک کا رھنما ايک ايراني سپہ سالار ابومسلم مروزي تھا جس نے اموي خلافت کے خاتمے کي تحريک شروع کي تھي اور اپني اس انقلابي تحريک ميں کافي ترقي اور کاميابي حاصل کرلي تھي يھاں تک کہ اموي خلافت کا خاتمہ کرديا - يہ تحريک اور انقلاب اگر چہ زيادہ تر شيعہ مذ ہب کے پروپيگنڈوں پر منحصر تھا اور تقريبا ً اھلبيت (ع) کے شھيدوں کے انتقام کے عنوان سے اھلبيت (ع) کے ايک پسنديدہ شخص کے لئے بيعت ليا کرتا تھا ليکن اس کے باوجود شيعہ اماموں کا نہ تو اس کے لئے کوئي حکم تھا اور نہ ھي انھوں نے اس کے لئے کوئي اشارہ کيا تھا -اس کا ثبوت يہ ھے کہ جب ابو مسلم نے امام ششم کا نام مدينہ ميں بيعت کے لئے پيش کيا تو انھوں نے سختي سے اس تجويز کو رد کرديا تھا اور فرمايا تھا : ” تو ميرے آدميوں (پيروکاروں )ميں سے نھيں ھے اور يہ زمانہ بھي ميرا زمانہ نھيں ھے ” -(تاريخ يعقوبي ج3 ص86 ، مروج الذ ہب ج 3 ص268)
آخر کار بني عباس خاندان نے اھلبيت (ع) کے نام پر خلافت پرقبضہ کرليا - شروع شروع ميں اس خاندان کے خلفا ء ، شيعہ اور علوي خاندان کے ساتھ مھرباني سے پيش آئے حتيٰ کہ علوي شھدا ء کے انتقام کے نام سے انھوں نے بني اميہ کا قتل عام بھي کيا اور خلفائے بني اميہ کي قبروں کو کھود کر ان کي ھڈياں بھي جلا ديں ليکن زيادہ عرصہ نھيں گزرا تھا کہ انھوں نے بھي بني اميہ جيسا ظالمانہ طريقہ اختيار کرليا اور اس طرح ظلم وستم اور لاقانونيت ميں کوئي کسر اٹھا نہ رکھي-
ابوحنيفہ جو اھل سنت کے چار اماموں ميں سے ايک ھيں ، کو خليفہ عباسي منصور نے قيد ميں ڈال ديا اور ان کو سخت اذيتيں اورتکليفيں دي گئيں - امام احمد حنبل جواھلسنت کے دوسرے امام تھے کو سرعام کوڑے لگائے گئے اور اسي طرح شيعوں کے چھٹے امام جعفر صادق عليہ السلام کو سخت ترين شکنجوں ، اذيتوں اور تکليفوں کے بعد زھر دے کر شھيد کرديا گيا - اس حکومت کے دوران علوي خاندان کے افراد کو اکٹھا کرکے ان کي گردنيں اڑا دي جاتي تھيں يا ان کو زندہ درگور کرديا جاتا تھا اور کبھي کبھي بعض افراد کو ديواروں ميں چنوا دياجاتا تھا يا سرکاري عمارتوں کے نيچے دفن کرديا جاتا تھا -
عباسي خليفہ ھارون الرشيد کے زمانے ميں اسلامي سلطنت اپنے عروج پر پھونچ چکي تھي اور بھت زيادہ وسعت اختيار کرگئي تھي يھاں تک کہ کبھي کبھي خليفہ سورج کو ديکہ کر کھا کرتا تھا : ”اے سورج جھاں بھي تيرا دل چاھے اپني شعاعيں زمين پر پھينک ليکن ميرے ملک سے باھر ھرگز نھيں چمکے گا (يعني جھاں تک سورج چمکتا ھے وھاں تک ميرا ملک ھے )-” ايک طرف تو اس کي فوجيں مشرق ومغرب کي طرف آگے بڑھتي چلي جارھي تھيں اور دوسري طرف بغداد کے پل پرجو خليفہ کے محل سے چند قدم کے فاصلے پر واقع تھا خليفہ کي اجازت کے بغير اس کے گماشتے پل سے گزرنے والوں سے ٹيکس وصول کيا کرتے تھے يھاں تک کہ جب ايک دن خود خليفہ نے اس پل سے گزرنا چاھا تھا تو انھوں نے اس کا راستہ روک کر اس سے ٹيکس ادا کرنے کامطالبہ کيا تھا - (قصہء جسر بغداد )
ايک گانے والے شخص نے چند شھوت انگيز شعر پڑھ کر عباسي خليفہ امين کي شھوت کو ابھارا تو امين نے اسے تيس لاکھ چاندي کے درھم انعام ميں دئے وہ گانے والااس قدر خوش ھوا کہ خليفہ کے قدموں ميں گر پڑا اور کھنے لگا : ”اے اميرالمومنين ! کيا آپ نے يہ ساري رقم مجھے عطا فرمادي ھے ؟ ”خليفہ نے جواب ديا : ” اس رقم کي کوئي اھميت نھيں ھے کيونکہ يہ ساري رقم ھميں ملک کے ايک ايسے حصے سے ملي ھے جس کو ھم جانتے بھي نھيں ”-(کتاب اغاني ابي الفرج)
وہ بے اندازہ اور بے شمار دولت جو اسلامي ممالک سے بيت المال کے عنوان سے ھر سال دارالخلافہ ميں پھنچتي تھي ، سب کي سب خليفہء وقت کي شھوت پرستي ، ھوس راني ، عياشي اور عوام کي حق تلفي پر خэ ھوتي تھي - ان خوبصورت کنيزوں ، لڑکيوں اور لڑکوں کي تعداد ھزاروں تک پھنچتي تھي جو ھر وقت خليفہ کے دربار ميں خدمت پر مامور تھے -
اموي حکومت کے خاتمے اور بني عباس کے اقتدار سے شيعوں کي حالت ميں ذرہ برابر بھي فرق نہ آيا سوائے اس کے کہ ان ظالم او ربيداد گر دشمنوں نے صرف اپنا نام تبديل کرليا تھا -
بشکریہ : الحسنین ڈاٹ کام
متعلقہ تحريريں :
اسلام اور ہر زمانے کي حقيقي ضرورتيں (حصّہ سوّم )
مخالفين صلح
صلح حديبيہ کا پيمان
پيغبر کي بيوي پر تہمت (حديث افک)
غزوہء بني مصطلق يا مريسيع