• صارفین کی تعداد :
  • 2391
  • 8/9/2011
  • تاريخ :

عورت کا مقام و مرتبہ (تيسرا حصّہ)

مسلمان خاتون

عورت کا ناقص ہونا

ايک اور گروہ ہے جو عورت کے ذاتي شر يا شرور ہونے پر اعتقاد نہيں رکھتا بلکہ ان کا نظريہ يہ ہے کہ يہ شر عورت کے ناقص وجود کي وجہ سے ہے ان کے نظريہ کے مطابق عورت ناقص خلق کي گئي ہے اور اس وجہ سے اس کي عقل بھي ناقص ہے. اور مرد اس موجود سے ايک کامل ہستي کي اميد رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ عورت بھي اس کي طرح کمالات کي راہوں کو طے کرے ليکن عورت اس کمال تک نہيں پہنچ سکتي، لہذا مرد اس کا نام شر يا شرارت رکھتا ہے اور اسے شرارت کي نگاہ سے ديکھتا ہے. اور يہ وہي چيز ہے کہ جس کے وجود کو شر کہا جاتا ہے وہ يا تو نسبي ہے يا عَدَمي اور يہ دونوں چيزيں مادہ کے نقص اور اس کے ضعف کي وجہ سے ہيںاور اس مادي عالم کے نقائص اور محدوديتوں کي بنا پر دوسرے مادي موجودات کيلئے شر ايجاد ہوتا ہے اور شرارت کا سبب بنتا ہے اس بنا پر اگر ايسے ماحول اور فضا ميں کہ جہاں کامل وجود عمل کرے اور ايک عورت اس ميں مداخلت کرے تو اس کا منفي اثر اور منفي رد عمل ہوتا ہے جسے شرارت کہا جاتا ہے اسي وجہ سے عورت کے وجود کو شرارت کہا جاتا ہے جو اس کے نقص کي طرف پلٹتا ہے اور اس کے ناقص ہونے پر دلالت کرتا ہے اس نظريہ پر حضرت علي کي فرمائش ہمارے ليے بہترين دليل ہے، حضرت علي فرماتے ہيں:

’’معاشر الناس انّ النّسائ نواقص الايمان، نواقص الحظو1 نواقص العقول، فاما نقصان ايمانھنّ فقعودھنّ عن الصّل والصّيام في ايّام حيضھنّ، و امّا نقصان عقولھنّ فشھاد امرآتين کشھاد الرجل الواحد، و اما نقصان حظوظھنّ فمواريثھنّ علي الانصاف من مواريث الرجال.‘‘

لوگو! عورتيں ايمان، ارث (وراثت) اور عقل کے لحاظ سے ناقص ہيں ان کا ايمان کے لحاظ سے نقص يہ ہے کہ وہ حيض کے دنوں ميں نماز اور روزہ سے محروم ہيں اور عقل کے لحاظ سے ان کا نقص يہ ہے کہ دو عورتوں کي شہادت ايک مرد کي شہادت کے برابر ہے اور ارث کے لحاظ سے ان کا نقص يہ ہے کہ انہيں مردوں کا نصف ارث ملتا ہے

اسي وجہ سے لوگوں ميں يہ اصطلاح زيادہ رائج ہے اور جب عورت کو کچھ کہنا ہو تو ناقص العقل کہا جاتا ہے اس نظريہ سے چند ايک نتيجے نکل سکتے ہيں :

1عورتوں کے عقل اور ايمان کے لحاظ سے ناقص ہونے کي وجہ سے انہيں اجتماعي کاموں ميں مردوں سے آگے جانے کي اجازت نہيں دي جاني چاہيے يا انہيں اصلي اور مقام ومقام نہيں دينا چاہيے اور ان کے نقائص پر توجہ کرتے ہوئے ان کے مشورہ پر عمل نہيں کرنا چاہيے

2 عورتوں کو اپنے اس ذاتي نقص پر توجہ کرتے ہوئے ايسے عمل کرنا چاہيے کہ اس معاشرے پر کوئي برا اثر مترتب نہ ہو. لہذا انہيں اپنے فرائض پر توجہ کرني چاہيے

3ايسے امور ميں کہ جہاں غور و فکر کي زيادہ ضرورت ہے،عورتوں کو شامل نہيں کرنا چاہيے

تحرير: سيد ارشد حسين موسوي کشميري


متعلقہ تحريريں :

خواتين پرمغرب کا ظلم و ستم اور اسلام کي خدمات

تربيت اولاد

ايران کي تاريخ ميں عورت

اسلام ميں عورت کا حق وراثت ( حصّہ دوّم )

شريک حيات کے حقوق